یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو ہر وقت زمانہ کے لحاظ سے اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب عام لوگ سیدھے راستے سے ہٹ جائیں تو حاکمانِ وقت ان کو راہِ راست پر لاتے ہیں۔ اگر حاکمانِ وقت (بیوروکریسی اور سیاستدان) گمراہ ہو جائیں تو علمأ کرام ان کو ٹھیک کرتے ہیں اور جب علمأ بگڑ جائیں تو اولیأ کرام ان کی اصلاح فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ روحانی نظام میں اولیأ‘ ابدال‘ اوتار‘ نقبأ‘ نجیب‘ اغواث اور اقطاب اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں بارہا ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن میں اسلامی روایات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مغلوب نہ ہو سکے کیونکہ ٹھیک اسی دم صوفیأ کرام کا گروہ ان کی مدد کو آ جاتے اور اپنے اندازِ فکر سے اس تنِ بیمار میں اتنی توانائی اور قوّت بخش دیتے تھے کہ ساری طاقتیں اس کے سامنے عاجز آ جاتی تھیں۔ ایک ایسا ہی وقت مسلمانوں پر چھٹی صدی ہجری میں بھی آیا جب سلجوقی سلاطین اور عبّاسی خلفأ کی باہمی کشمکش کا دور تھااور ساتھ ہی صلیبی جنگوں کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ اس خون آشام دور کا تذکرہ مؤرخ ابنِ کثیر نے بھی کیا ہے ۔ ایسے میں سلطان العارفین برہان العاشفین ابوالعباس سیّدنا و شیخنا احمد بن ابی الحسن علی الرفاعی المعروف السیداحمد الکبیرمعشوق اللہ العزیز الحسنی الحسینی الموسوی الرفاعی رضی اللہ تعالی عنہ ؓ منصہ شہود پر نمودار ہوئے اور شریعت کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اپنے خاص اندازِ فکر (راتب رفاعیہ) سے اس تنِ بیمار کو بھرپور توانائی بخشی جس سے نہ صرف امّتِ مسلمہ کو سہارا ملا بلکہ اس کے بعد آج تک سسکتی انسانیت استفادہ حاصل کر رہی ہے۔
حضرت الشیخ السیّد احمد الکبیر الرفاعی ؓ سلسلۂ خانوادہ عالیہ الرفاعیہ کے بانی ‘ سرکردہ اور مورثِ اعلیٰ ہیں۔ آپؓ کا نام احمد کُنیت ابوالعباس اور ابو العالمین اور لقب محی الدین اور کبیر ہیں۔ جدِّ امجد حضرت السید حسن اصغر رفاعتہ الہاشمی المکی کے لقب رفاعہ کی مناسبت سے رفاعی مشہور ہوئے۔ آپ ؓ امام شافعی کے مسلک کے پابند تھے اور نسبتاً امامین عالی مقام حضرت حسن ؓ ؓابنِ علیؓ اور حضرت حسین ؓابنِ علی ؓ اور حضرت امام موسیٰ کاظم ؓ کی اولاد میں سے ہیں اسی لئے الحسنی الحسینی الموسوی کہلائے۔ آپؓ کی ولادتِ باسعادت بروز جمعرات یکم رجب المرجب 512 ھ بمطابق 17 اکتوبر 1118ء کو عراق کے شہر واسط کے قصبہ امِّ عبیدہ کے قریہ حَسَن میں ہوئی ۔ اس وقت عباسی خلیفہ مسترشد اللہ عباسی کی حکومت تھی ۔ آپؓ مادرزاد ولی ہیںجن کی ولادت کی خوشخبری حضرت رسالت مآب محمد مصطفیٰ ﷺ نے چالیس روزقبل آپؓ کے ماموں حضرت منصور البطائحی ؒ کو بشارت میں دی تھی۔
آپؓ نے 7 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ فرمایا اور بہ عمر 20 سال تمام علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت پاکر اپنے استاد محترم الشیخ علی الواسطی ؒ سے سند و اجازت حاصل کر کے درس و تدریس شروع کر دی۔ آپؓ نے اپنے ماموں حضرت منصور البطائحی سے علوم باطنیہ کی تحصیل کر کے خرقۂ سجادگی اور خلافت سے سرفراز ہوئے اور عوام و خواص کی اصلاح و خدمت میں مشغول ہو گئے۔ آپ کا سینہ مبارک علومِ ظاہری و باطنی سے معمور تھا جس کی روشنی چہار سُو پھیل کر لوگوں کے دلوں کو منور کرتی تھی 28 سال کی کی انتہائی کم عمری میں آپ کے فضل و کمال اور ریاضت و تقویٰ کی اس قدر شہرت تھی کہ دور دور سے لوگ جوق در جوق تلاشِ حق اور رُشد و ہدایت کیلئے آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور بخلوصِ نیت بیعت ہو کر حلقۂ عقیدت میں شامل ہو تے اور کامیاب و بامراد لوٹتے۔ مستند کتابوں کے مطابق بہ عمرِ تمام آپ ؓ کے خلفأ کی تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار ایک سو تھی جن میں بعض قطب اور ابدال بھی شامل ہیں جبکہ آپ کے مریدوں اور عقیدتمندوں کا کوئی شمار نہیں۔
555ھ میں آپؓ اپنے خلفأ و مریدین کے ہمراہ مکّہ مکرمہ حج کیلئے تشریف لے گئے اور فریضۂ حج سرانجام دینے کے بعد روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کیلئے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ روضۂ رسول ﷺ پر پہنچے تو آپ کا چہرہ مبارک نور سے چمک رہا تھا اور بہ سبب ذوق و شوق حالتِ وجد و کیف طاری تھی ‘ آپؓ نے مزارِ مبارک سرورِ کائنات ﷺ کے قریب پہنچ کر بآوازِ بلند مگر انتہائی عجز و احترام کے ساتھ تحفۂ ِسلام پیش کیا '' السلام علیکَ یا جدّی (آپ پر سلام ہو اے میرے نانا)'' جواب میں مزارِ اطہر ﷺ سے ازروئے انعام ارشاد ہوا '' وعلیکم السلام یا ولدی (آپ پر بھی سلامتی ہو اے میرے فرزند) '' اور اس سلام و جواب کی مسحور کُن آواز کو تمام حاضرینِ حرم شریف کے علاوہ میلوں دور تک سُنی گئی ۔ اس درجہ انعام و اکرام کے سبب حالتِ وجد و رعد میں مزار اطہر ﷺ کے مزید قریب ہو کر آپؓ نے یہ رباعی پڑھی !
ترجمہ!'' دوری کی حالت میںتو میں اپنی روح کوروضۂ اطہر پر بھیجتا تھا تا کہ زمین بوسی میں میری نائبی کرے ۔ اب جبکہ دولتِ وصل اصالتاً(بہ حالتِ جسمانی) حاصل ہے ‘ تو آپ اپنا سیدھا ہاتھ دراز فرمائیے تا کہ اُسے بوسہ دے کر مجھے شرف حاصل ہوـ'' ۔
سبحان اللہ کیا نوازش و اکرام رسولِ خیر الانام ﷺ ہے سیّدنا امام الاولیأ حضرت السید احمد الکبیر ارفاعی ؓ پر کہ ابھی یہ اشعار تمام نہ ہوئے تھے کہ مزارِ رحمت اللعالمین ﷺ سے حضور سرور کونین ﷺ کا دستِ پُر ضیأ تمام انوار و تجلیّات کے ساتھ عیاناً جلوہ افروز ہوا اور سیّدِنا احمد الکبیر معشوق اللہ الرفاعی ؓ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انتہائی ادب و احترام اور عجز و انکساری کے ساتھ دستِ معطر و منور ﷺ کو تھام کر بوسہ لیا بعدہٗ دستِ انور ﷺ دوبارہ مزارِ پُر نور میں مخفی ہو گیا۔ اسوقت حرم شریف میں اعلیٰ مراتب مشائخِ کرام اور اولیأ عظّام سمیت کم و بیش ۰۰۰,۹۰ (نوے ہزار ) زائرین اور عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ کا مجمع موجود تھا جن میں حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ ‘ حضرت عدی بن مسافر الاموی ؒ ‘ حضرت عبدالرزاق الحسینی ؒ ‘ شیخ احمد زعفرانی ؒ ‘ حضرت شیخ حیات بن قیس حرّانی ؒ اور شیخ خمیس ؒ شامل ہیں جنھوں نے آنحضور ﷺ کے دست مبارک کی شرف ِ زیارت کی سعادت پائی ۔ اس تاریخی واقعہ کا تذکرہ ہر معاصرہ مؤرخ و مصنف جیسے امام احمددگری نے " روضۃ الناظرین " میں ‘ حافظ الدین الواسطی نے " تریاق المحبین " میں ‘ سید محمد ابو الہدیٰ نے " قلاوۃ الجواہر ـ" میں ‘ شیخ عارف سید محمد الجیلانی الرفاعی نے " لباب المعانی" میں ‘ شیخ صفی الدین مظفر نے " قصیدہ نونیہ" میں اور حضرت ابوالعباس احمد نے " ارشاد المسلمین" میں تحریر کیا ہے۔
آپؓ کی ذاتِ اقدس نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور تمام مخلوقِ خدا کیلئے نہ صرف دینی و دنیاوی بلکہ انتہائی ہمدرد ‘ پُر شفقت، غریب پرور تھی اور عجز و انکساری و تواضع کا بہترین نمونہ تھی۔ آپؓ اپنے رفقأ ‘ خلفأ ‘ مریدین اور صالحین کو عجز و انکساری اور شفقت و محبت کی تعلیم فرماتے۔ آپ ؓ مجذوبوں‘ معذوروں‘ اندھوں اور کوڑھیوں کے پاس جاتے انھیں نہلاتے‘ ان کے کپڑے دھوتے‘ سر اور داڑھی میں کنگھی کرتے ‘ ان کو کھانا پہنچاتے اور ان کے ساتھ خود بھی کھانا کھاتے اور ان کے پاس بیٹھ کر محبت سے ان کی دلجوئی کرتے۔ آپ ؓ کی مشفقانہ صفات کی مثال نہیں ملتی‘ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک خارشی کتے کو دیکھا جسے لوگ آبادی سے دور چھوڑ آئے تھے ‘ آپؓ نے جب یہ دیکھا تو اس کتے کے ساتھ بیابان تک گئے ‘ اس کیلئے سائبان بنایا‘ اس کو تیل لگاتے ‘ کھانے پانی کا انتظام کرتے اور اس کی خارش کو کپڑے سے صاف کرتے یہاں تک کہ وہ بالکل ٹھیک ہو گیا تو اسے گرم پانی سے غسل دیا ۔
آپؓ علومِ طریقت کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ علومِ شریعت میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق علومِ عقلیہ و نقلیہ پر ۶۰۰ (چھ سو) سے زائد کتب تصنیف و تالیف فرمائیں جن میں سے بیشتر مرورِ زمانہ کے باعث ناپید ہیں۔ باقی بچ جانے والی کتب میں سے ایک کتاب " مسندِ امام رِفاعیـ" ہے جو آپؓ کی سند سے بیان کر دہ احادیث مبارکہ نبی کریم ﷺ کا مجموعہ ہے اور آپؓ کے علومِ حدیث میں یدِ طولیٰ رکھنے کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کتاب کو تحقیق و تخریج کے بعد عربی مصر کے محقق عبدالسلام بن محمد بن حبوس نے مرتب کیا اور اس کا اردو ترجمہ جامعہ نظامیہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی حیدرآباد انڈیا کے فاضل نوجوان حافظ محمد خان بیابانی نے کیا ہے۔ 11206حادیث ِ نبوی ﷺ پر مشتمل اس کتاب کو 9 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 140 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو بیابانی اسلامی ریسرچ اینڈ نالج سینٹر ‘ درگاہ شریف قاضی پیٹ‘ ورنگل تلنگانہ‘ انڈیا نے شائع کیاہے۔
حضرت الشیخ السیّد احمد الکبیر الرفاعی ؓ کی ذات اقدس کی مسودہ صفات پر مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ نے ایک رسالہ " طرد الارفاعی عن حمٰی رفع الرفاعی" تحریر فرمایا ہے جو فتاویٰ رضویہ جلد نہم کے صفحات 130 تا 174 پر محیط ہے جسے المجدد احمد رضا اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔حضرت عظیم البرکتہ سیّدنا و شیخُنا السید احمد الکبیر الرفاعی ؓ بیشک اکابر اولیأ و اعاظم محبوبان خدا و تابعین ِ محمد مصطفیٰ ﷺسے ہیں۔امامِ اجل اوحد سیدی ابوالحسن علی بن یوسف نور المتہ و الدّین نعمی شطنوفی قدس سرہ العزیز ـ"کتابِ مستطاب بہـجہۃ الاسرار شریف" میں فرماتے ہیں ! حضرت السیّد احمد الکبیر الرفاعیؓ سردارانِ مشائخ و اکابر عارفین و اعاظمِ محققین و افسرانِ مقربین سے ہیں۔ سنتِ رسول ﷺ کی پیروی میں عوام و خواص کی اصلاح کیلئے تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ پند و نصائح کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا
آپؓ نے مختصر علالت کے بعد بروز جمعرات 22 جمادی الاول 578ھ بمطابق 24ستمبر 1182ء بعد نمازِ عصر داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیائے فانی سے پردہ فرمایا۔ 9 لاکھ افراد نے آپ ؓ کے جنازے میں شرکت کی اور آپؓ کی تدفین اُمِّ عبیدہ عراق کے مقام پر ہوئی ۔
پاکستان میں سلسلۂ الرفاعیہ کے فروغ اور اصلاح المسلمین کیلئے حضرت الشیخ السیّد رضی الدین عرف لالہ میاں الرشید الرفاعی علیہ الرحمہ سجادہ نشین سلسلہ الرفاعیہ پاکستان مقرر ہو کر مسند نشین ہوئے ۔ آپ ؒکے وصال کے بعد آپؒکے فرزند حضرت السیّد علی المعروف سیّد وزیر علی عرفان اللہ الغالب الرشید الرفاعی علیہ الرحمہ مسند الرفاعیہ پر متمکن ہوئے بعدہٗ ان کے فرزند حضرت السیّد سلطان ظفریاب علی العظمت اللہ الرفاعی مد ظلہٗ العالی سجادہ نشین مسندِ عالیہ خانوادۂ و سلسلہ الرفاعیہ پاکستان مقرر ہو کر عوام الناس کی بے لوث خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
امام الاولیأ سلطان العارفین غوثُ المعظم قطب الاقطاب حضرت الشیخ السیّد احمد الکبیر الحسنی الحسینی الموسوی الرفاعی ؓ کا 863 واں سالانہ تین روزہ عرس رفاعی ہر سال کی طرح اس سال بھی مورخہ 23جنوری 2020 جمعرات اور 24جنوری 2020 جمعہ بمقام المرکز الخانقاہ الرفاعیہ پاپوش نگر کراچی میں اور 25جنوری بروز ہفتہ ککری گراؤنڈ نزد لی مارکیٹ کھارادر کراچی میں بعد نمازِ عشأ منعقد کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
سلطان العارفین السیّد احمد الکبیر
Jan 24, 2020