گذشتہ روز پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی اطلاع پر ہم اپنا ایکریڈیشن کارڈ لینے کے لیے صبح ساڑھے نو گلبرگ کالج کے گیٹ پر پہنچے ہی تھے کہ سفید رنگ کی کار پر کرکٹ بورڈ میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے دو افسران شکیل خان اور سید نذیر احمد بھی پہنچ گئے۔ سیریز کی وجہ سے شکیل خان کا فون ہر وقت دوسری کال پر لگا رہتا ہے وہ مسلسل فون پر مصروف تھے۔ ہم کالج کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک دوست سے ملاقات ہو گئی وہ پاکستان بنگلہ دیش سیریز کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے پوچھنے لگے کہ یہ سپانسرز کا کیا مسئلہ ہے اس سے پہلے کہ ہم جواب دیتے پنجاب پولیس کے ایک پرجوش جوان نے کہا "مسلہ کیہ اے جی، کوئی لبھیا ای نئیں، چھوٹا جا لوگو تے تن سپانسر نیں، کل دی خبر چل رئی اے۔ اینہاں کولوں کجھ ہوندا نئیں، جنی اسیں سکورٹی دے رئیے آں سپانسر تے مکنے نئیں چاہی دے اینہاں نوں لبھدا کوئی نئیں۔ یہ جواب سننے کے بعد دوست نے پوچھا اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہمارا جواب تھا جناب مسئلہ کوئی بھی ہو آپ یہ دیکھیں کہ سپانسرز کی کمی کو ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے اور عام آدمی بھی جائزہ لے رہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس شعبے میں کس حد تک ناکام ہے۔ اس دوران شکیل خان اور نذیر احمد اپنی گاڑی پارک کر چکے تھے ہم اپنا ایکریڈیشن وصول کرنے کے بعد واپس آ گئے۔
بنگلہ دیش ٹیم کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس مرتبہ ماضی کی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے۔ جو گاڑیاں ٹیم کی آمد سے قبل قذافی سٹیڈیم کی حدود میں داخل ہو جاتی تھیں اس مرتبہ انہیں بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مشکل اور سختی کے اس دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کیمرہ مینوں پر بھی سختی کا فیصلہ کرتے ہوئے میچوں کے دوران انہیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی تک محدود کر دیا ہے۔ اس حد بندی پر لاہور کے کیمرہ مین خاصے ناراض ہیں سینئر کیمرہ مین زاہد شفیع کہہ رہے تھے کہ ہمیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی تک محدود کرنے کے لیے پیش کیے گئے جواز میں وزن نہیں ہے۔ چند روز قبل ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد زاہد شفیع کو یہ کہتے سنا گیا کہ رپورٹرز کو اس حوالے سے ضرور سوال کرنا چاہیے تھا۔ ماہر کمیرہ مین ثاقب کو بھی میڈیا گیلری میں اسی حوالے سے جب طنز کیا گیا تو انہوں نے جواب میں رپورٹرز کی فار اینڈ بلڈنگ موجودگی پر طنزیہ جملہ کہا کہ کوئی بات نہیں دو تین سیریز کے بعد آپ سب بھی ہمارے ساتھ این سی اے میں ہی بیٹھا کریں گے۔ میڈیا کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کا سلسلہ نجم سیٹھی نے شروع کیا تھا انہوں نے صحافیوں کو میڈیا ڈیپارٹمنٹ تک محدود کیا ان کے بعد آنے والوں کی منصوبہ بندی یہی ہے کہ صحافیوں قذافی سٹیڈیم میں جتنا ہو سکے فاصلے پیدا کر دیے جائیں۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں کہ ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کا شعبہ مارکیٹنگ ہر ماہ بھاری تنخواہیں وصول کر رہا ہے تو دوسری طرف کارکردگی یہ ہے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں صرف تین سپانسرز ہی نظر آ رہے ہیں۔ انٹرنیشنل میچوں کے دوران مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی اور بحالی بہت بڑا ایونٹ ہے۔ کرکٹ بورڈ اس اہم موقع پر مارکیٹنگ کے نقطہ نگاہ سے مناسب انداز میں فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ جب سب کچھ آؤٹ سورس کرنا ہے تو ڈائریکٹر کمرشل کی کیا ضرورت ہے وہ تو ایک فرنچائز کے ساتھ بھی ناکام رہے تھے۔ صرف تین سپانسرز بورڈ عہدیداران کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیمرہ مینوں کو این سی اے تک محدود کرنے کا فیصلہ بھی مناسب نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کنٹرولڈ میڈیا کا تصور پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تو غیر اعلانیہ پابندی معلوم ہوتی ہے۔ کیمرہ مینوں کی رپورٹرز کے ساتھ موجودگی میں کئی اچھی سٹوریز سامنے آتی تھیں لیکن بورڈ کی پالیسی یہی ہے کہ صرف وہی چیز ٹیلی ویژن چینلز یا اخبارات میں جائے جو ان کے بیانیے کہ حمایت کرے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کرکٹ سیریز کے لیے سپانسرز کی کمی پر پی سی بی کو خاصی تنقید کا سامنا ہے۔ ٹوئٹر پر اس حوالے کافی بات ہو رہی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔ مخدوم ابوبکر بلال لکھتے ہیں کہ پی سی بی سپانسرز لانے میں ناکام، سپانسرز نے پی سی بی سے منہ پھیر لیا، ٹینڈر پر موجود ایڈورٹائزنگ کمپنی نے ہاتھ کر دیا، انٹرٹینمنٹ سے بھرپور تین ٹونٹی ٹونٹی کے لیے پی سی بی کو صرف تین سپانسرز ہی مل سکے، ارسلان جٹ لکھتے ہیں۔ سوال۔ سپانسرز کہاں ہیں، جواب۔ وقت کم تھا، سوال، ٹکٹس کیوں نہیں بک رہے، جواب۔سردی بہت ہے۔
یہ منظر سیریز کے انتظامات کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلی حکام کی ناقص کارکردگی کی داستان سنا رہا ہے۔
وقت کی کمی اور سردی کا بہانہ ایسا ہی ہے جیسے بیٹسمین سے رنز نہ ہوں اور وہ ملبہ پچ پر گرا دے، باؤلر ٹھیک لائن پر گیند نہ کرے اور ناکامی کی صورت میں پچ کو ذمہ دار قرار دیتا ہوا نظر آئے۔ یہ درست ہے کہ سیریز کے انعقاد پر خطرات کے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن سپانسرز کو قائل کرنے کے لیے تو کام جاری رہنا چاہیے تھا اگر مناسب انداز میں کام کیا جاتا تو یقیناً صورت حال مختلف ہوتی۔ جو سپانسرز آئے ہیں ان کے بارے میں ایک کہانی الگ ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں بورڈ کو سپانسرز مل نہیں رہے۔ قائد اعظم ٹرافی کا اختتام ہو چکا ہے لیکن بورڈ کو ابھی تک صوبائی ٹیموں کے لیے بھی سپانسرز نہیں ملے۔ نہ بین الاقوامی سیریز بک سکے نہ قائد اعظم ٹرافی اور دعوے ہیں کارپوریٹ کلچر اور انتہائی پیشہ ور ہونے کے۔ جب بابو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہیں گے تو نتائج یہی ہوں گے۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر سپانسرز کی کمی معمولی مسئلہ نہیں ہے اس ناکامی ذمہ دار کون ہے۔ چونکہ سیریز کا اعلان تاخیر سے ہوا ہے اس لیے عین ممکن ہے کہ نشریاتی ادارہ بھی معاہدے کے مطابق ادائیگی نہ کرے یوں اس طرف سے بھی مالی نقصان کا سامنا رہے گا۔ کروڑوں کے اخراجات سیکیورٹی پر آئیں گے۔ ان حالات میں سپانسرز کی عدم دلچسپی کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔
سپانسرز کی کمی اور قیدی کیمرہ مین!!!!!!
Jan 24, 2020