قوموں کیلئے خطرات کے الارم اِنکی اجتماعی بیداری اور انکے اجتماعی طرز عمل اور اُنکی قومی پالیسیوں میں تبدیلی کا پیش خیمہ اور سبب بنتے ہیں۔ جب قومیں بیدار ہوتی ہیں تو وہ خطرات کے الارم سُن کرکانوں میں اُنگلیاں دبا کر سو نہیں جاتیں اور نہ ہی چین کی بانسری بجاتی ہیں۔ قومیں ابتدائی طور پر خطرات کو اپنی حکمت عملی اور تدبر اور خداداد فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹالنے کی کوشش کرتی ہیں اور جب خطرات تدبر، فراست اور حکمت عملی کا حصار توڑ کر قوم کے وجود کو مٹانے کیلئے آگے بڑھنے کاعزم کرتے ہیں تو بیدار قومیں خطرات کی آندھی سے دیوانہ وار ٹکرا جاتی ہیں اور خطرات کے طوفان کو پہلا قدم اُٹھانے کا بھی پورا موقع فراہم نہیں کرتیں۔
آج پاکستان یقیناً خطرات، خدشات تحفظات، اور طرح طرح کی مشکلات میں گِھرا ہے۔ بیرونی خطرات زیادہ ہیں یا اندرونی خدشات زیادہ ہیں؟ تحفظات زیادہ ہیں؟ یا مشکلات زیادہ ہیں؟ بیرونی خطرات آندھی کی طرح ہم پر چھا جانا چاہتے ؟ یا طوفان کی طرح ہم سے ٹکرا جانا چاہتے ہیں؟ قوم کی نظریں کیا دیکھ رہی ہیں؟ ہمارے چارہ گروں اور مسیحائوں کی نظریں کیا دیکھ رہی ہیں؟ دِیدہ بِینا کیلئے ، نگاہِ دُوربین کیلئے آندھی اور طوفان کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دیدہ و بینا نگاہیں وقت سے پہلے ہی آندھی یا طوفان کی شدت اور اسکے رُخ کا اندازہ کر لیتی ہیں۔ حکومت بھی کہہ رہی ہے خطرات میں گِھرے ہیں۔ اپوزیشن بھی کہہ رہی ہے ملک خطرات میں گِھرا ہے۔ تجزیہ نگار دانشور اورتبصرہ نگار بھی خطرات کی نشاندہی اور پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔
جب قومیں اور ملک خطرات میں گِھرے ہوں تو قوم کا اجتماعی شعور بیدار ہو جاتا ہے۔ قوموں کا اجتماعی شعور کبھی بھی حالت بیداری میں لمحوں کی خطا کا متحمل نہیں ہوتا ایسے لمحے جو آنے والی نسلوں کیلئے صدیوں کی سزا کا موجب بن جائیں۔ آج میرا ملک بھی میرا وطن عزیز بھی خطرات میں گِھرا ہے‘ مشکلات میں گِھرا ہے اور قوم کے اجتماعی شعور کو بیدار کرتے ہوئے انہیں فیصلہ کن اقدامات کی طرف اُبھار رہا ہے۔ اگر تم نے حالات کے تیز بہائو میں اُبھرنا نہ سیکھا اور اُبھر کر جمنا نہ سیکھا تو یاد رکھو حالات کاتیز بہائو تمہارے قدموں کو متزلزل کر دے گا اور جب تمہارے قدم ڈگمگا کر اُکھڑ گئے تو پھر حالات کا کوئی بھی تیز رِیلا تمہیں ذِلت کے سمندر میں ڈبو نے کیلئے اپنے ساتھ بہا کر لے جائیگا۔ اے میری قوم! تمہارا ماضی بڑا شاندار اور بڑا روشن ہے۔ تم نے تاریخ انسانی کے بڑے بڑے طوفانوں کا رُخ موڑا ہے اورصرف رُخ ہی نہیں موڑا بلکہ ان طوفانوں کا منہ بھی توڑا ہے۔
اے میری قوم! تمہارے شاندار ماضی اور تمہاری شاندار وراثت میں ’’بدر کا معرکہ اور میدان‘‘ بھی ہے۔ آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل جب اس وقت کا کُفر اپنی پوری قوت اور اپنے سارے اتحادیوں کے ساتھ، اپنے سارے لائو لشکر کے ساتھ، اپنے اس وقت کے بھاری سامان حرب و ضرب کے ساتھ بدر کے میدان میں تمہارے وجود کو مٹانے کیلئے اُترا تو وہ تمہارے آباء ہی تھے جو بے سروسامانی کی حالت میں اُن سے ٹکرا گئے۔ کُفر کے اس طوفان سے ٹکرانے والوں میں بعض تمہارے آباء میں ایسے بھی تھے جو بہت کمزور تھے جن کے پاس نہ سواری تھی نہ سامان جنگ پورا تھا۔ تیر ہے تو کمان نہیں۔ کمان ہے تو تیر نہیں لیکن پھر بھی وہ دنیائے کفر کی مسلح فوج کے ساتھ ٹکرا گئے جن کی تعداد کئی ہزاروں میں تھی۔
امام الانبیاء سیدالانبیاء قائد الانبیاء خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات، مقصود و منبع کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں کفر سے ٹکرانے والے تمہارے یہ آباء تعداد میں 313 تھے اور مقابلے میں کفریہ طاقتوں کا لشکر دس ہزار سے بھی مُتجاوز تھا۔ اور پھر آسمان کی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ بے سرو سامانی کی حالت میں میدان بدر میں کفریہ طاقتوں کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔ کُفریہ طاقتوں کے اُس وقت کے سب سے بڑے اتحاد کو شکست فاش ہوئی اور ذِلت و رسوائی کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ کفر یہ طاقتوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ کفر کی رسوائی، ذِلت اور بربادی کی فضاء مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی۔
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے مُنتظر فَردا ہو
آج ایک مرتبہ پھرکُفریہ طاقتوں کا سردار نریندر مودی تمہارے وجود کومٹانے کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔ پالیسیاں اور نقشے جاری کر رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر غیر آئینی جابرانہ قبضہ کے بعد کشمیر کے نہتے، بے بس کمزور و ناتواں مسلمانوں پر ظلم وجبر اور استبداد کے ذریعے انسانی تاریخ کا بدترین کرفیو نافذ کر کے اُنکا خون بہا رہا ہے۔ تمہاری مسلمان بیٹیوں، بہنوں اور مائوں کی عصمتیں اور عزتیں ہندو درندے فوجی پامال کر رہے ہیں۔ اُنکی قیمتی جائیدادوں پر قبضے، عورتوں کے قیمتی زیورات گھروں میں موجود روپیہ پیسہ چھین کر اُن مسلمانوں پر عرصہ حیات کو تنگ کردیا گیا ہے۔ تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں اور تمہاری مائیں ہندو درندے فوجیوں نے ظالمانہ اور جابرانہ بدترین کرفیو کے نفاذ سے اب تک تقریباً چھ ماہ کاعرصہ مکمل ہونے کو آ رہا ہے اپنے قبضے میں لے رکھی ہیں۔تمہاری مائیں تمہیں پکار رہی ہیں۔ ہماری عزتیں ہماری عصمتیں ظالم درندے ہندو فوجیوں سے بچانے کیلئے اپنے آباء محمد بن قاسم کی طرح اس دور کے راجہ داہر ظاہر نریندر مودی سے ٹکرانے کیلئے آگے بڑھو تم کب آئو گے؟ ہماری عزتیں، ہماری عصمتیں ظالم ہندو فوجیوں سے بچانے کیلئے آگے بڑھو ہماری نگاہیں تمہاری غیرت کے جوش میں آنے کی منتظر ہیں۔ تمہاری غیرت کب جاگے گی؟
انڈیا نے جو نیانقشہ جاری کیاہے اُس میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں کو اپنا حصہ دکھایا ہے انڈیا کی طرف سے یہ جسارت انتہائی قابل مذمت اور ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے ایک الارم ہے اور پوری قوم کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم بحیثیت قوم انڈیا کی سازشوں اور اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو یہ ہمارا قومی المیہ ہو گا۔وطن عزیز کو اسوقت داخلی طور پر استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ غیر یقینی حالات میں ملک کمزوری اور عدم استحکام کی طرف بڑھتے ہیں۔ وطن عزیز میں عدمِ استحکام کا مسلسل بڑھنا خطرے کا الارم ہے۔ ہمارے داخلی حالات میں انتشار کی وجہ سے عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتیں خوشیاں منا رہی ہیں۔ دُشمن قوتیں تو یہ ہی چاہتی ہیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو اور پاکستان کیخلاف اُن کا مذموم ایجنڈہ آگے بڑھے۔
موجودہ حالات میں حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک میں اتحاد یکجہتی اور قومی استحکام کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہو گا۔ ملک کے داخلی حالات آئے روز عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت اور قومی سلامتی کا دفاع کرنے والے اداروں کا یہ قومی اور اولین فریضہ ہے کہ وہ اُن اسباب اور ایشوز کا بغور جائزہ لیں جن کی وجہ سے ملک میں انتشار اور عوام میں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ حکومت تین بڑے قومی ایشوز پر تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو اعتماد میں لے۔سینٹ و قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے یا آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے وہ تین بڑے ایشوز جن کی وجہ سے اضطراب بڑھ رہا ہے یہ ہیں۔
-1 مقبوضہ کشمیر پر انڈیا کا غیر آئینی قبضہ اور طویل ترین کرفیو کا نفاذ۔ پاکستان کی طرف سے کسی موثر جوابی کارروائی کا نہ ہونا اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے مذموم عزائم کے خلاف حکومت کی طرف سے کسی مضبوط لائحہ عمل اور پالیسی کا سامنے نہ آنا۔ 2 ۔ سیاست میں عدم برداشت کا طوفان اور بے اعتمادی کا سیلاب اور حکومت کی طرف سے قومی یکجہتی کیلئے کسی ایک پالیسی کا بھی نہ ہونا اور قومی یکجہتی کو یکسر نظر انداز کر دینا۔ -3 مہنگائی ، بے روزگاری اور ٹیکسوں کا آئے دن نیا سیلاب اور طوفان، تاجر برادری کا پورے ملک میں عدم اطمینان اور کاروبار کا ٹھپ ہو جانا۔حکومت کی طرف سے سود کے جابرانہ نظام کو فروغ دینا تھانے کچہریوں اور پٹوار خانوں میں عوام کی ذلت و خواری۔ ہسپتالوں میں دوائوں کی عدم دستیابی اور عوام کی تذلیل۔ ان تین ایشوز کے ذیل میں درج مسائل اورمشکلات کا عوام کی قوت برداشت پر بہت زیادہ منفی اثر مرتب ہو رہا ہے جو خطرے کا الارم ہے۔حکمرانوں کیلئے بھی تمام سیاستدانوں کیلئے بھی اور ملک کے مستقبل کیلئے بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنا مضبوط اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار رہیں اور حکمران اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ملک اور قوم کو ان مسائل اورمشکلات سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کریں۔
؎انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
خطرات کے الارم…اور ہم
Jan 24, 2020