2020ء تو گزر گیا لیکن اس سال کے دوران کرونا کی تباہ کاریوں اور مشکلات کا دنیا بھر میں لوگوں نے سامنا کیا، اس کی گزشتہ صدیوں میں مثال نہیں ملتی ۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق اب تک 20لاکھ سے زائد افراد اس موذی وبا ء کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ایک سال کے بعد کرونا کی دوسری جبکہ بعض ملکوں میں تیسری لہر اپنی تباہ کاریاں دکھا رہی ہے۔ اس سے بچائو کیلئے کوئی موثر اور حتمی شفا یاب دوا سائنسدان اور ماہرین تیار نہیں کر پائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ابتک دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہوئے، جو ہسپتالوں اور خصوصی کیمپوں میں بچائو کیلئے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی کوششوں سے بچائو کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔عالمی سطح پر اس وجہ سے گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا اس کے بارے میںکہنا ہے کہ اس موذی مرض سے بچائو کے لئے ویکسین کی تیاری بے حد ضروری ہے تا کہ کروناسے نجات مل سکے اور اس کے اثرات کا مکمل خاتمہ ہوجائے۔ ماہرین کی جانب سے مختلف ملکوں میں دستیاب ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کی مدد سے ویکسین کی تیاری ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے ۔چین ، امریکہ، برطانیہ ، جاپان ، روس اور دیگر ممالک میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہاں ویکسین تیار کر لی گئی ہے اور اس کی اربوں خوراکیں تیار کر کے سپلائی کو یقینی بنا یا جارہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں ابتک تیار ہونے والی ویکسین موثر اور حتمی شفایابی کے لئے کام نہیں کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر مشہورادویات تیارکرنے والی کمپنیوں کی طرف سے بھاری مقدار میں ویکسین کی خوراکیں تیار کی جاچکی ہیں اور مزید تیار کرنے کے انتظامات ہو رہے ہیں ان کا جائزہ اقوام متحدہ کی سطح پر بھی لیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کئی بار اس بات پر زور دیا کہ تیار ہونے والی ویکسین کروناسے زیادہ متاثرہ ملکوں کو ترجیحی بنیادوں پر مہیا کی جائے یہ بھی کہا گیا کہ جن ملکوں کے پاس مالی و سائل کی کمی ہے انہیں بطور خاص یہ ویکسین مہیا کی جائے۔ اے کاش، ایسا ہی ہوتا ، المیہ یہ ہے کہ امیر ملکوں کی طرف سے پیشگی رقم کی ادائیگی کر کے ویکسین مخصوص کروالی گئی جبکہ غریب اور کم وسائل والے ملکوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ امیر ملکوں کی اس کامیابی سے ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا کہ انسانی حقوق کی اہمیت کے محض زبانی دعوے کئے جاتے ہیں تقاریر اور احتجاجی بیانات تک یہ بات محدود ہے کم و سائل والے غریب معیشت کے حامل ملکوں کو ویکسین کی فراہمی اور مالی امداد کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ تین چارماہ سے آواز بلند کی جاتی رہی ۔ اقوام متحدہ کے علاوہ مختلف ملکوں کے سربراہوں سے بھی رابطہ کر کے یہ پیغام پہنچایا گیا مگر اس کا کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہوا کہ امیر ملکوں کے آرڈرز کو ترجیحی دی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب اور غیر مستحکم معیشت والے ملکوں میں متاثرین کرونا ویکسین سے فیض یاب ہونے کا محض خواب ہی دیکھ رہے ہیں ویکسین کی اربوں خوراکیں دھڑا دھڑ تیار کر کے امیر ملکوں میں کرونا سے متاثرین کے لئے دی گئی ہیں ۔ یہ ویکسین وہاں لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر لگائی بھی جارہی ہے۔ جن ملکوں کی طرف سے ابھی تک دستیاب ویکسین حاصل کرنے کے لئے کوئی آرڈر بک نہیں کرایا گیا۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے کیونکہ بنیادی طور پر مالی وسائل آڑے آرہے ہیں۔ یہ ممالک امیر ملکوں اور بااختیار اداروں کی منافقانہ پالیسی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اصولی طور پر ایسے ملکوں کو امیر ملکوں اور اداروں کی مالی معاونت سے ترجیحی بنیادوں پر ویکسین مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کا یہی تقاضا ہے مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر مالدار اور ریسرچ میں خودکفیل ملکوں کو اپنا فریضہ فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ اسی طرح کرونا کے دنیا سے خاتمے کی کوششیں کامیا ب ہو سکتی ہیں ۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا یہی تقاضا ہے جس کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
امیر ملکوں کی دنیا میں کرونا ویکسین کی تقسیم
Jan 24, 2021