جب پاکستان نے ’’براڈ شیٹ ‘‘ کیس میں برطانوی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں جرمانہ کی بھاری رقم ادا کی تو پورے ملک میں ایک طوفان برپا ہو گیا شاید اس وقت کسی کو براڈ شیٹ کمپنی کا نام ہی معلوم نہ ہو اس کمپنی کے ساتھ نیب کی طرف سے کئے جانے والے معاہدے کا ایک طویل پس منظر ہے جس کا تعلق جنرل پرویز مشرف کے دور سے لیکن اس کیس میں ہونے والے جرمانہ کی ادائیگی موجودہ دور حکومت میں ہوئی ہے لہذا اس کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی جا رہی ہے حالانکہ اس کیس کی ذمہ داری ماضی کی تمام حکومتوں پر ڈالی جا سکتی ہے یہ ایشو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر زیر بحث ہے اس معاملہ کی بازگشت پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی ۔ ایوان بالا اور ایک پریس کانفرنس میں وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے براڈ شیٹ کیس پر تفصیلی بیان دیا ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ سب کچھ کیا دھرا ماضی کی حکومتو ں کا ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے ’’براڈ شیٹ ‘‘ کیس کی تحقیقات کیلئے سینیٹ کی ’’ان ہول ‘‘ کمیٹی قائم کرنے کی تجویز بھی ایوان کے سامنے رکھ دی تھی جسے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے خوش دلی سے قبول کر لیا تھا لیکن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی ان ہول ہائوس کمیٹی قائم کرنے کے بارے میں رولنگ نہیں آئی اگلے روز وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں براڈشیٹ کے معاملہ پر وزراء کی سہ رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ایک اور 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو 45 روز میں اپنی رپورٹ پیش کردیگی۔ تحقیقاتی کمیٹی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج عظمت سعید کی سربراہی میں تشکیل دے دی گئی ہے اس میں ایف آئی اے کے سینئر افسر، وزیراعظم کے نامزد کردہ سینئر لائر اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کے آفس کے نمائندے شامل ہونگے۔ کمیٹی جس کو بلانا چاہے طلب کر سکے گی اور کسی ادارے سے کوئی کاغذ طلب کرنا چاہے کر سکے گی۔ اسکی رپورٹ پبلک کی جائیگی ، کمیٹی فائدہ دینے اور لینے والوں کو بے نقاب کریگی۔ چونکہ حکومت نے یہ کمیٹی اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر بنائی ہے لہذا پہلے روز سے ہی متنازعہ ہو گئی ہے اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی سے معاہدہ کی ذمہ دار اس وقت کہ حکومت ہے اس کا دامن صاف ہے تو اسے ایک ایسی تحقیقاتی قائم کرنی چاہیے جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ بصورت دیگر متنازعہ کمیٹی سے تحقیقات کا نتیجہ کوئی بھی قبول نہیں کریگا۔ وزیر اعظم کو خوش دلی سے ایک ایسی کمیٹی بنانے پر رضامندی کا اظہار کر دینا چاہیے جو حکومت اور اپوزیشن کیلئے قابل قبول ہو ۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے’’ براڈ شیٹ‘‘ سے معاہدے کی دستاویزات پبلک کردی ہیں جس سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے انہوں نے بتایا ہے کہ براڈ شیٹ معاملے میں جو بھی ادائیگی کی گئی وہ ماضی کی حکومتوں نے کی ہے انہوں نے اسے ’’ ڈیلز اور دئیے گئے این آر اوز ‘‘کی قیمت قرار دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایون فیلڈ کی مد میں براڈ شیٹ کو 1.5ملین ڈالر دیئے گئے وزیراعظم کی ہدایت پر براڈشیٹ سے متعلق دونوں فیصلوں کی دستاویز ات پبلک کی جا رہی ہیں ۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ جون 2000 ء قومی احتساب بیورواور براڈ شیٹ کے مابین اثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا، جس کے بعد جولائی 2000میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔ دسمبر 2000میں جب نواز شریف سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اور اس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دئیے گئے تھے۔ 28اکتوبر 2003میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا، جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007میں حکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہے ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008میں تصفیہ کیا گیا اور انہیں 22لاکھ 50ہزار ڈالر ادا کیے جانے تھے جو اب بھی نافذ عمل ہے۔ 20مئی 2008کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردستخط ہوئے جس کے تحت انہیں 15لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اکتوبر 2009کو براڈ شیٹ نے واجب الادا رقم کی ادائیگی کیلئے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجا، چنانچہ اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ثالثی میں معاملہ چلتا رہا اور 2016میں اپنے اختتام پر پہنچا جس کے تحت اگست 2016میں پاکستان کیخلاف واجب الادا رقم کا دعویٰ منظور ہوگیا، جس کے بعد 2سال تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا اور اس کا فیصلہ جولائی 2018میں ہوا اگست 2018میں ہماری حکومت آئی اور جولائی 2019میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کی گئی جس کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا، فیصلے میں 2007کے این آر او کے بارے میں بھی لکھا ہے، اس فیصلے کے مطابق ان کی چوری کا تخمینہ 16ارب روپے لگایا گیا ہے، نوازشریف تو 2000 تک ایون فیلڈ کو اپنی ملکیت مانتے ہی نہیں تھے، اس فیصلے میں 2007 کے این آر او کے بارے میں بھی لکھا ہے، 21.5ملین ڈالر میں سے 20ملین ڈالر کی ادائیگی نوازشریف کے دیگر اثاثوں پر ہوئی۔ جون 2020میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہذا اسکے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے، یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکائونٹس پر لیا گیا 31دسمبر 2020کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جسکے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا؟ گذشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنت نے الیکشن کمشن ا ٓف پاکستان کے باہر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ہے جس میں مطالبہ کیا کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ کے زیر التوا کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے۔ احتجاجی مظاہرے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مریم نواز اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا ہے پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈ کا نام تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس ہے۔ نومبر 2014 میں یہ کیس دائر کیا گیا۔ الیکشن کمشن نے سات برسوں میں اس کیس کی محض ستر سماعتیں کیں ۔ عمران خان نے مقدمے کو ملتوی کرانے کی 30 بار کوشش کی۔ پی ٹی آئی نے 8 وکیل بدلے لیکن 8 وکیلوں کو بدلنے کے باوجود چوری نہیں چھپی۔ سٹیٹ بینک نے عمران خان کے 23 خفیہ اکائونٹس پکڑے ہیں ۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے بھی ’’فارن فنڈنگ ‘‘ کیس کی ٹی وی پر براہ راست کوریج کی تجویز دے کر بڑا چیلنج دیا ہے اب اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ اس چیلنج کو قبول کر لے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی پانی ہو جائے ۔