جن پاکستانیوں کے ذہن میں پچاس ساٹھ ستر حتیٰ کہ 80 کی دہائی کی یادیں موجود ہیں، وہ موجودہ دور کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہو رہے ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کو بہت مشکل وقت کا سامنا تھا۔ پاکستان کی معیشت انتہائی ابتر تھی۔ دوسری طرف ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کا سیلاب تھا جن کی آبادکاری ایک بڑا چیلنج تھی۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور درمیان میں دشمن ملک بھارت تھا۔ بھارت پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہا تھا، بھارتی لیڈریہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ ایک دو سال قائم رہے گا اور پھر دوبارہ بھارت میں ضم ہو جائے گا۔ ان سنگین مشکلات کے باوجود بانیان پاکستان نے اس ملک کو نہ صرف اپنے پائوں پر کھڑا کیا بلکہ آہستہ آہستہ داخلی اور خارجی اعتبار سے اسے مستحکم بھی کیا۔ پاکستان بنانے والے رہنما اور ان کے بعد آنے والی نسل نے پاکستان کیساتھ اپنی محبت اور کمٹمنٹ کا عملی ثبوت دیا۔ ہم یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے پاس سرکاری دفاتر میں استعمال کیلئے کاغذات حتیٰ کے ان کاغذوں کو جوڑنے والی ’’کامن پِنیں‘‘ بھی دستیاب نہیں تھیں۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے اہلکار کانٹے دار درختوں سے کانٹے توڑ کر فائلوں میں کاغذات کو جوڑنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو پوری ایک ریاست کو ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے، وہ ایک سادہ اور درویش صفت وزیراعظم بن کر سامنے آئے۔ جب انھیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کیا گیا اور ان کی لاش کو پوسٹمارٹم کیلئے راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لے جایا گیا تو پتہ چلا کہ ان کی شیروانی کے نیچے قمیض پھٹی ہوئی تھی اور ان کی جرابوںمیں بھی سوراخ تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ان کے بینک میں اس وقت 54 روپے موجود تھے۔ ایک ریاست کا مالک جو نوابزادہ تھا، اس نے پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ انھوں نے نئی دہلی میں اپنی شاندار کوٹھی جس کی اب اربوں روپے کی مالیت ہو گی، پاکستان کو اپنا سفارتخانہ بنانے کیلئے پیش کر دی۔
لیاقت علی خان کے بعد بھی جو حکمران 50 کی دہائی میں اقتدار میں آئے، وہ مالی لحاظ سے بدعنوان نہیں تھے۔ قومی خزانہ کو وہ ایک امانت سمجھتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین، ملک غلام محمد، چوہدری محمد علی، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون ان سب کے بارے میںیہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بدعنوان نہیں تھے، انھوں نے قومی خزانے پر ہاتھ صاف نہیں کئے، جائیدادیں نہیں بنائیں اور پاکستان سے ناجائز طور پر پیسہ بنا کر بیرون ملک نہیں بھیجا۔ انھوں نے پاکستان سے وفاداری اور محبت کا ثبوت دیا۔ وہ ملکی خزانے کو ایک امانت سمجھتے تھے۔ ان کاکوئی مالیاتی سکینڈل سامنے نہیں آیا اور جو تاریخ ہمارے سامنے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سچے اور کھرے لیڈر تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان نے ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا تو اس دور میں سیاسی انجینئرنگ کا آغاز ہوا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جو 80 ہزار کونسلرز بنیادی جمہوریت کے ذریعے منتخب ہوتے تھے، ان کو خوش اور مطمئن رکھنے کیلئے سرکاری سرپرستی کی گئی۔ اسی دور میں ارکان اسمبلی کو سرکاری زمینیں الاٹ ہوئیں۔ سنیما گھر تعمیر کرنے کیلئے لائسنس جاری کئے گئے۔ اس دور میں سنیما کا بزنس بہت منافع بخش تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ارکان اسمبلی کو ٹرانسپورٹ کے پرمٹ بھی جاری کئے گئے۔ کوئی بھی مسافر بس بغیر پرمٹ نہیں چل سکتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جس میں پرانی روایت سے ہٹ کر کونسلر اور ارکان اسمبلی کو مراعات دینے کا سلسلہ جاری ہوا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کچے پاکستان میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداران کو راشن ڈپو ، مٹی کی تیل کی ایجنسیاں اور کچھ اور مراعات دی گئیں۔ لیکن اس دور میں بھی اس طرح کی کھلے عام کرپشن نہیں ہوئی جو اس قوم نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھنا شروع کی۔ خاص طور پر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جس طرح کی سیاسی قیادت سامنے آئی اور اس قیادت کو سیاسی وسائل سے نوازا گیا، وہ بھی تکلیف دہ تھا۔ اس دور میں صرف محمد خان جونیجو دیانتداری کی ایک مثال تھے جنھوں نے بطور وزیراعظم قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچنے دیا اور اپنے تین وزراء کو بدعنوانی کا الزام لگنے پر کابینہ سے فارغ کر دیا۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ان کے دور میں ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو کسی حد تک نوازنے کا آغاز ہوا۔ پھر نواز شریف وزیراعظم بنے اور انھوں نے بھی دل کھول کر اپنے سیاسی ساتھیوں کو نوازا۔ ان کے دور میں ارکان اسمبلی کی سفارش پر نائب تحصیل دار، تحصیل دار اور پولیس میں سب انسپکٹر اور انسپکٹر کی ہزاروں تقرریاں کی گئیں۔ ان کے دوسرے دور میں بھی یہی چلن رہا۔ جنرل مشرف نے جب 12 اکتوبر 1999 کو جب اقتدار سنبھالا تو توقع تھی کہ وہ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرنے اور حکومت میں شامل لوگوں کو مراعات دینے کے اس عمل سے جان چھڑائیں گے۔ انھوں نے نیب بھی بنایا جس کا مقصد بدعنوان عناصر کو کٹہرے میں لانا تھا لیکن اس نیب کے دائرہ اختیار سے ججوں، جرنیلوں اور صحافیوں کو باہر نکال دیا۔ نیب نے اس دور میں بدعنوانی کے کیسز کا پیچھا کیا اور کچھ لوگوں کو سزائیں بھی ہوئیں۔ کچھ پیسہ بھی ریکور ہوا لیکن یہ ادارہ وہ مقاصد حاصل نہ کر سکا جس کیلئے اسے بنایا گیا تھا۔ بدعنوانی بڑھتی گئی اور قومی خزانے کی لوٹ مار جاری رہی۔ جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے دس سالوں میں اپنا پرانا اسلوب حکومت تبدیل نہ کیا اور بدعنوانی کو انتہا تک پہنچا دیا۔ لوٹ مار کے اس عمل میں سول بیوروکریٹس اور سرکاری اداروں کے اہلکار بھی شامل ہو گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس کرپشن کے خاتمے کیلئے اقتدار میں آئی۔ موجودہ نیب نے بڑی تعداد میں بدعنوانی کے ریفرنسز بھی قائم کئے اور سابق حکومتوں کے بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا لیکن بدعنوانی کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جن لوگوںپر قومی خزانے کو نقصان پہچانے کا الزام ہے اور جن کیخلاف مقدمات چل رہے ہیں وہ اس عمل کو انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں اور انھیں ابھی تک کی سزا نہیں مل سکی جو اس کا تقاضا تھا۔ ان تمام لوگوں نے احتسابی عمل کو متنازعہ بنا دیا ہے اور بڑی حد تک عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ احتساب محض مخالفوں کا ہو رہا ہے۔ پاکستان کے لوگ یہ دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں کہ اس ملک میں صحیح معنوں میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جنھوں نے اس ملک کو لوٹ لوٹ کر کنگال کر دیا ہے اور جو احتساب کے عمل کو بھی ناکارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔