وزیراعظم کے ماہِ رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کم کرنے کے احکام اور سٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ عوامی نمائندوں کو اپنے حلقے کے لوگوں کی فلاح کیلئے قانون ساز اسمبلیوں میں آواز اٹھا کر مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ روز ارکانِ اسمبلی سے ملاقاتوں کے دوران اور ایک جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے رمضان المبارک میں عوام کو اشیائے خوردونوش کی بلاتعطل اور کم نرخوں پر دستیابی کے حوالے سے تیاری اور بروقت اقدامات کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل عام آدمی کو اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں میں کمی کو یقینی بنایا جائے۔ جائزہ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سات ہفتوں کے حساس اعشاریہ کی روشنی میں پیاز‘ ٹماٹر اور مرغی کے گوشت کے نرخوں میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور آئندہ کچھ ہفتوں میں ویجی ٹیبل گھی کی قیمتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جائیگی۔ اجلاس کو گندم کی ریلیز کے حوالے سے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
دریں اثناء سٹیٹ بنک نے شرح سود سات فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک باقررضا نے گزشتہ روز مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ مستقبل قریب میں شرح سود اسی سطح پر برقرار رہ سکتی ہے۔ انکے بقول معاشی حالت جون 2019ء کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ مہنگائی کی شرح سات سے 9 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ بجلی کے نرخ بڑھنے پر مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انکے بقول معیشت میں ابھی وہ بہتری نہیں آئی جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بے شک کرونا وبا کی وجہ سے بھی ملک کی معیشت کو دھچکے لگے ہیں اور عالمی کساد بازاری کے پاکستان کی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم حکومت کی سخت اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں سے بالخصوص عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ زیادہ پڑا ہے اور آج ہم مہنگائی کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ وزیراعظم تو روزافزوں مہنگائی پر فکرمند بھی ہیں‘ عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کا تردد بھی کرتے ہیں اور انتظامی مشینری کو مہنگائی پر کنٹرول کیلئے ضروری ہدایات بھی جاری کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے گزشتہ روز کے جائزہ اجلاس میں بھی ماہ رمضان سے پہلے پہلے مہنگائی کم کرکے عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے احکام صادر کئے ہیں مگر ان تمام تر اقدامات کے باوجود مہنگائی کا سرکش گھوڑا قابو میں نہیں آرہا اور بگٹٹ دوڑا ہی چلا جارہا ہے۔ نتیجتاً عام آدمی عملاً زندہ درگور ہو چکا ہے جس میں روزمرہ استعمال کی عام اشیاء بھی خریدنے کی سکت نہیں رہی۔
وزیراعظم عمران خان اور انکے دوسرے پارٹی لیڈران نے چونکہ عام انتخابات سے قبل سابق حکمرانوں کی کرپشنوں‘ اللے تللوں اور دوسری بے ضابطگیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں عوام کے روٹی روزگار کے مسائل بڑھنے کا ذمہ دار گردانا اور ان گھمبیر مسائل سے عوام کو خلاصی دلانے کے دل خوش کن نعرے لگائے اس لئے فطری طور پر عوام کی توقعات بھی ان سے زیادہ وابستہ ہوئیں جنہوں نے اپنے مینڈیٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی اقتدار کی راہ ہموار کی تو اس سے اپنے گوناں گوں مسائل کے فوری حل کے بھی متقاضی ہوئے۔ اسکے برعکس پی ٹی آئی کو اقتدار میں آکر احساس ہوا کہ اسے تو انتہائی خراب معیشت ورثے میں ملی ہے جسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے سخت گیر مالیاتی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔
یہ پالیسیاں اختیار کی گئیں تو بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بھی حکومت کی مجبوری بن گیا جس کی شرائط کی بنیاد پر حکومت کو جہاں پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس کے نرخوں میں اضافہ کی مجبوری لاحق ہوئی وہیں وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں بھی ٹیکسوں کی شرح بڑھانا اور نئے ٹیکس لگانا حکومت کی مجبوری بن گیا چنانچہ عوام اپنے روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف کے بجائے ان مسائل میں مزید جکڑے جانے لگے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت عوام کے ان مسائل کے فوری حل کی کوئی جامع منصوبہ بندی بھی نہیں کر پائی جبکہ آئے روز انہیں پٹرولیم‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں اضافے کی نوید مل رہی ہے۔ سٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی میں بھی اب یہی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر بڑھنے والی مہنگائی بھی حکومت کے کنٹرول میں نہیں آرہی اور گزشتہ روز گھی‘ چینی‘ دالوں کے ساتھ ساتھ مصالحہ جات کے نرخوں میں بھی بے مہابا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے بھی کبھی خیر کی کوئی خبر نہیں آئی اور مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اسکی ہر ہفتے کی رپورٹ میں مہنگائی کے شتربے مہار ہونے کی اطلاع ہی دی جاتی ہے۔ گزشتہ روز بھی وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی پر جو ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کئے ہیں اسکے مطابق رواں ہفتے آلو‘ لہسن کے نرخ کم ہوئے ہیں مگر گھی‘ دالوں اور گوشت سمیت 19 اشیائے ضروریہ مزید مہنگی ہو گئی ہیں اور مجموعی طور پر رواں ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.32 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی گرانی بتائی جاتی ہے۔
اگر یہی صورتحال برقرار رہی اور مہنگائی کے سونامی اٹھتے رہے تو وزیراعظم کی رمضان المبارک سے پہلے عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کی کاوشیں بھی غیرمؤثر ہو جائیں گی کیونکہ ماہ رمضان المبارک میں تو ناجائز منافع خور تاجر طبقات بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ حکومت کو بہرصورت عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور انکے روٹی روزگار کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے اور اس مقصد کیلئے اپنی گورننس بہتر بنانا ہوگی کیونکہ عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔