واشنگٹن‘ کابل (نوائے وقت رپورٹ + این این آئی + انٹر نیشنل ڈیسک) امریکی صدر جوبائیڈن انتظامیہ نے طالبان‘ امریکہ امن معاہدے کا جائزہ لینے کا اعلان کر دیا۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکہ طالبان کی جانب سے دوحہ میں ہونیوالے امن معاہدے کی پاسداری کا جائزہ لے گا۔ امریکہ کے قومی سلامتی مشیر نے افغان حکام کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے فون پررابطہ کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ذرائع نے بتایاکہ گفتگو میں مشیرقومی سلامتی وائٹ ہائوس کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ طالبان کیساتھ امن معاہدے پر نظرثانی کرے گی، جائزہ لیا جائے گا کہ طالبان کے مسلح گروپ سے تعلقات ختم ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے۔واضح رہے کہ امریکا افغان طالبان امن معاہدہ گزشتہ سال ہوا تھا، امن معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالا جانا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس ماہ کی پندرہ تاریخ کو ا فغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزارکر دی تھی۔ جوبائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن ڈیل کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کئے ہیں۔ سولیوان کے مطابق ڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اس ڈیل کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ وہ افغانستان میں 20 سالوں سے جاری جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔