مودی کو امریکی ویزے کی منسوخی سے سٹوک وائیٹ رپورٹ تک

Jan 24, 2022

سبھی جانتے ہیں کہ 2005میں امریکی حکومت کی جانب سے مودی کو امریکہ کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا ۔ایسے میں یہ توقع بیجا نہ ہو گی کہ شائد سٹوک وائیٹ رپورٹ سامنے آنے کے بعد عالمی ضمیر میں کچھ بیداری پیدا ہو ۔دوسری جانب یہ بات اگرچہ خاصی اہم ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے بارے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کو دی گئی درخواست پر تاحال کوئی کارروائی نظر نہیں آئی ہے اور نہ ہی انڈیا کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع یا وزارتِ داخلہ نے تاحال کوئی ردعمل جاری کیا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں لندن میں ایک نجی لا فرم، سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل نے میٹروپولیٹن پولیس کو درخواست دی ہے، جس میں انڈیا کی فوج کے سربراہ سمیت دیگر فوجی اور نیم فوجی حکام کے خلاف انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم، ریپ، عدالت سے ماورا قتل اور تشدد کے دیگر واقعات کی وجہ سے برطانوی قانون جینیوا کنوینشنز ایکٹ 1957 کے تحت مقدمہ چلانے کا کہا گیا ہے۔سٹوک وائیٹ لا فرم نے الزام عائد کیا ہے کہ انڈین فوج کے سربراہ جنرل نروانے اور وزیر داخلہ امِت شاہ کی سربراہی میں انڈین سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد کر رہی ہے، اغوا کر رہی ہے اور انھیں ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 برطانیہ کی پارلیمنٹ کا ایک قانون ہے جس میں جنیوا کنونشنز کی دفعات کو برطانوی قانون میں شامل کیا گیا ہے اور جنیوا کنونشنز ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے میں کیے گئے جنگی جُرم، ریپ اور تشدد کے دیگر واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مقدمہ چلانے کی گنجائش موجود تو ہے لیکن اس میں ’سخت چیلنجز‘ درپیش ہیں۔برطانیہ کے بارے میں عدالتوں اور پولیس کا دائرہ اختیار علاقائی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ صرف برطانیہ کی حدود میں ہونے والے جرائم کے لیے مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ تاہم جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 کے تحت جنگی جرائم عالمگیری دائرہ اختیار کے تابع ہیں، جو اس اصول کو ایک انتہائی طاقتور انصاف کا طریقہ کار بناتا ہے۔سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کے انویسٹیگیشن یونٹ کی جاری کردہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹ پر انڈیا کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع اور وفاقی وزارت داخلہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔یاد ہے کہ سٹوک وائٹ انویسٹی گیشنز یا SWI-unit سٹوک وائیٹ قانونی فرم کے اندر قائم ایک آزاد تفتیشی یونٹ ہے۔سٹوک وائٹ کی اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی قانونی فرم ہے جو کسی معاملے یا موضوع ماہرین اور اُس کے علم اور انصاف کے حصول کے ذریعے اپنے موکلان کے لیے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔فرم کا کہنا ہے کہ وکلا کے اس گروپ نے یورپی عدالتِ انصاف (ای سی جے) میں ایک ایسا مقدمہ سب سے پہلے پیش کرنے اور یورپی کمیونٹی ایسوسی ایشن کے معاہدے (ای سی اے اے) میں پالیسی تبدیلیوں کے لیے کامیابی کے ساتھ بحث کرنے کا اعزاز حاصل کیا، یہی معاہدہ ترک شہریوں کے لیے انقرہ معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کمپنی نے شام میں ہونے والے مبینہ جرائم کی تحقیقات کے لیے چیف پراسیکیوٹر کو درخواست دی تھی۔یہ لا فرم ترکی کے ایک بحری جہاز، 'ماوی مرمرا' کا آئی سی سی میں مقدمہ بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لڑ رہی ہے۔سٹوک وائٹ نے اب تک کُل دو رپورٹیں پیش کی ہیں، جن میں ایک مالی کے شہر بوونٹی میں 3 جنوری سنہ 2021 کو ایک شادی کی تقریب پر فرانسیسی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے واقعہ کے بارے میں ہے اور اس واقعے میں 19 شہری ہلاک ہوئے تھے ۔دوسری رپورٹ جو حال میں جاری ہوئی ہے، وہ اسٹوک وائٹ انویسٹی گیشنز کے اپنے وکلا نے تیار کی ہے، جس میں جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی جانب سے کیے گئے مبینہ جنگی جرائم اور زیادتیوں کے واقعات جمع کیے گئے ہیں تا کہ عالمگیری دائرہ اختیار کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے انڈین حکام کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو سکے۔سٹوک وائیٹ انویسٹی گیشنز-یونٹ (SWI-unit) کی طرف سے کشمیر میں تنازعہ کی ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد، یونٹ نے جنوری 2022 میں اپنے وکلا کو عالمگیری دائرہ اختیار کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے جنگی جرائم اور جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی طرف سے کی جانے والی مبینہ زیادتیوں پر قانونی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی۔رپورٹ لکھنے والے وکلا کے مطابق برطانیہ کے پاس جنیوا کنونشن ایکٹ 1957 کے تحت جنگی جرائم پر 'عالمگیری دائرہ اختیار' ہے - اس دائرہِ اختیار میں دیگر سنگین جرائم بھی شامل ہیں، جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے قابل بناتا ہے، باوجود اس کے کہ یہ مبینہ جرائم برطانیہ سے باہر ہوئے ہیں او ر تاحال جاری ہیں۔یونیورسل جیوریسڈکشن کے تحت یہ قانونی فرم برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ضیا مصطفیٰ کے کیس کی تحقیقات کرے، جسے ان کے مطابق انڈین حکام نے 18 سال سے بغیر الزامات یا بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا ہوا ہے اور انسانی حقوق کے ایک کارکن محمد احسن انتو پر جموں و کشمیر میں انڈین حکام کی طرف سے منظم تشدد کیا گیا۔  مذکورہ رپوٹ برطانیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اس طرح کے جنگی جرائم اور تشدد کا ارتکاب کرنے پر انڈین حکام کے سینئیر عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرے اور انھیں گرفتار کرے۔ایس ڈبلیو آئی-یونٹ کو تشویش ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر پر اس کی فوج، نیم فوجی دستوں، بارڈر سیکورٹی فورس، خصوصی ٹاسک فورس اور دیگر دفاعی کمیٹیوں کی جانب سے طویل عرصے سے کشمیر پر بھارتی قبضے نے منظم طریقے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔یہ رپورٹ خاص طور پر انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جن میں اس کے مطابق ماورائے عدالت قتل، تشدد، پیلٹ گن سے تشدد، جبری گمشدگی اور غیر قانونی حراست کے واقعات شامل ہیں۔سٹوک وائیٹ کی رپورٹ یہ بھی سمجھتی ہے کہ مذکورہ خطے میں ایک وسیع تر قانونی جواز مہیا کیا گیا ہے جو زیادتیوں کے واقعات کو جائز قرار دیتا ہے، اور اس قانونی جواز کو جنگ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے (یعنی جنگی جرائم کی اعانت کے لیے 'قانون سازی' کر کے)، انھیں دہشت گردی کے خلاف استعمال کی جانی والی پالیسیوں اور ویسی ہی بیان بازی سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔رپورٹ کو جن عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں 'انڈیا کا انسداد دہشت گردی کا عملاً مظاہرہ'، اسرائیل کے انٹیلی جنس افسران کا جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی کے بہانے تشدد کرنا، 'اسرائیل انڈیا کی ابھرتی ہوئی ڈرون جنگ کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔' اور 'سپورٹس اور انسداد دہشت گردی' شامل ہیں۔رپورٹ کے آخری حصے میں 'اختلافات اور ساختی تشدد: این جی اوز، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنا' اور 'صحافت بند کرنا' جیسے موضوعات کا ذکر ہے۔ایس ڈبلیو آئی-یونٹ نے انسانی حقوق کے وکلا اور کارکنان کے گھروں/دفتروں کے چھاپوں، عام کام کے بہاؤ میں رکاوٹیں، فیلڈ ورک کے دوران گرفتاری یا سفری دستاویزات کی بدنیتی سے ضبط کرنے کے مبینہ واقعات کو ایک دستاویزی شکل دی ہے۔اس کے مطابق 2019 کے بعد سے وکلا، انسانی حقوق کے ماہرین اور صحافیوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے کشمیریوں میں خوف کی ایک نئی فضا پیدا ہو گئی ہے۔

مزیدخبریں