صدارتی نظام کے اُٹھتے بلبلے 

Jan 24, 2022

سوشل میڈیا سے اُٹھنے والے صدارتی نظام کی دَبی چنگاری جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی پھیلتی پورے ملک کے سیاسی عمل کو ہی نہیں مین سڑیم میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور کوئی نیوز چینل ایسا دِھکنے میں نہیںآرہا جسے اس آگ سے محفوظ قرار دیا جاسکے ہر چینل     اپنے اپنے طور اس آگ کی تپش یاگرمائش جو بھی کہہ لیا جائے کوسمجھ کر کم کرنے کی بجائے ریٹنگ کے چکر میں اسے بھڑکانے میں ایکدوسرے سے سبقت لے جانے کی جاں توڑکوشیشوں میں ہی جتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ہم بھی ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے کے مصداق اس آگ کو دیکھ تو رہے ہیں مگر ابھی تک اس پر کچھ کہنے سے احتراز ہی برت رہے تھے کہ شائد’’ چال ‘‘جو کسی کی بھی ہو سکتی ہے کو کوئی سمجھ لے اور وہ اصل حقائق سامنے لے آئے مگر ایسا ہوتا نظر نہ آنے پر ہم خو د ہی وہ بھی دلیل سے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، اب اس سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے یہ مخاطبین پر منحصر ۔     اس حوالے سے پی پی پی ،ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے بیانات جو میڈیا پر سامنے آرہے ہیں پر بات کی جائے تو یہ بیانات صدارتی نظام کے حق میں تو ہیں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کیا حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے راہنماؤں کے علاوہ حکومتی وزراء جن میں سرفہرست وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیانات واضع طور سامنے آرہے ہیں جن میں تو دیکھا جائے تو صدارتی نظام کو سرے سے قابل عمل ہی قرار نہیں دیا جارہا جبکہ سینئر صحافیوں تجزئیہ کاروں بھی اسے بے وقت کی راگنی سے تشبیہ دے رہے ہیں . فواد چوہدری صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ صدارتی نظام کیلئے صوبوں کی تعداد بڑھانے ہوگی تو دوسرا اس کے لئے عام انتخابات بھی کروانے پریں گے جس کی وقت اور نہ ہی معاشی حالات اجازت دے رہے ہیں ۔اور اگر سب کو چھوڑ کر وزیر اطلاعات کے بیانات ہی کو فوقیت دی جائے تو ان کی روشنی میں تو صدارتی نظام واقعی بے وقت کی راگنی کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ آخر پھر وہ کونسی ضرورت ہے جس کے تحت سب چیزیں واضع ہو جانے کے باوجود یہ بحث میڈیا میں مسلسل جاری ہے ۔یہ ہم اپنے پڑھنے والوں کو بتائے دیتے ہیں مگر اس سے پہلے تھوڑا سامزید جائزہ لیے لیتے ہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی اُن پوسٹس کا بھی جو مبینہ طور پی ٹی آئی لورز کی طرف سے اس صدارتی نظام کے حق میں چلائی جارہی ہیں ۔ان بیانات میں جو وزیر اعظم عمران خان کے بڑے بڑے پورٹریٹ سے مزین ہیں میں بتایاجارہا ہے کہ ملک کا آئندہ صدر بھی عمران خان ۔اب اِن پوسٹس پر غور کیا جائے تو انہیں محبت کرنے والے مگر نادان سپورٹرز کا اظہار محبت تو قرار دیا جاسکتا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ اُن کے محبت کا یہ اظہار انکے قائد کو فائدہ پہنچائے گا یا نقصان مگر انہیں پوسٹس کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو یہ پی ٹی آئی مخالف لابی کی کارستانی بھی ہوسکتی ہے جسے بھی زہن میں رکھنا مناسب خیال ہوتا ہے ۔اس حوالے سے ہم اپنی بات کریں تو وہ یہ کہ چاہے پارلیمانی نظام ہو صدارتی نظام ہو یا فوجی نظام یعنی فوجی حکومت،مسئلہ نظام کا نہیں بلکہ نظام چلانے والے ہاتھوں کا ہے ،اگر ہاتھ تجربہ کار و باصلاحیت ہیں تو اِن تینوں میں سے کوئی بھی نظام کامیاب ہو سکتا ہے اور عوام ہی نہیں ملک بھی ترقی کی راہوں پر چل نہیں بلکہ برق جیسی رفتار سے دوڑ بھی سکتا ہے ۔اگر ہم عوام جو ہر دور میں وعدوں اور نعروں کی چکیوں میں پسلے گئے کی بات کریں تو اِن کے لئے تو پارلیمانی نظام بہتر ہے نہ ہی صدارتی بلکہ اِن کو فوجی نظام یعنی فوجی حکومت ہی سوٹ کرتی ہے جس میں کم ازکم انہیں اشیاء فروریہ کی تو سستے داموں دسیتییابی ممکن ہوتی ہی ہے کیونکہ اسطرح سے تما م تر زمہ داری فوجی نظام پر عائد ہوتی ہے اور دیکھا بھی گیا ہے کہ زمانہ جنگ کا ہو یا امن کا فوج ہمیشہ قوم کے مدد کو آتی رہتی ہے عوام کو ریلیف ملتا بھی ہے ۔سابق صدر ایوب خان مرحوم کے وقت کو لے لیجئے جس میں چینی ایک روپیہ سے بڑھ کر ایک روپیہ چار آنے ہوگئی تو اس وقت کے گورنر جنرل موسیٰ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئی ،وہ دن گیا اور پھر جنرل یحییٰ خان تک کے وقت تک اشیاء ضروریہ کی جو سرکاری ریٹ لسٹ مرتب کی گئی اس میں انیس بیس کا فرق بھی نہیں آیا  اور عوام کو جملہ ضروریات زندگی سستے داموں فراہم کی جاتی رہیں۔اِس وقت موجودہ حالات کو ہی لے لیجئے ، عوام کے نزدیک مسئلہ جمہوریت یا صدارتی نظام تو نہیں، ان کا مسئلہ مہنگائی کا ہے جسے چاہے پارلیمانی نظام حل کرے یا صدارتی یا پھر فوجی نظام ،انہیں تو دو وقت کی باعزت روٹی کا مسئلہ ہے جس پر توجہ نہ دیئے جا سکنے کے بعد ہی بات چل نکلی صدارتی نظام کی جانب وہ بھی محض وقت گذری کیلئے ۔یہ وقت گذری کی بات ہم یونہی نہیں بلکہ دلیل سے کر رہے ہیںکہ اگلہ سال تو انتخابات کا سال ہے جس کے اندر نئے انتخابات ہونے ہیں، باقی  بچا موجودہ رواںسال تو اس میں کہاں گنجائش نکل رہی ہے صدارتی نظام کیلئے نئے انتخابات کی،انتخابات کرانا خالہ جی کا گھر تو نہیں کہ ،دوسرا یہ بھی کہ موجودہ نازک ترین اندورنی و خارجی بالخصوص معاشی ملکی صورتحال میںکہ جس میںآئی ایم ایف کی وجہ سے ملکی مالیاتی اداروں خصوصاً سٹیٹ بنک کے حوالے سے سنگین قسم کے مسائل سر اُٹھا ئے ہوئے ہیں جبکہ تیسرا یہ کہ ملکی آئین بھی اس قسم کے صدارتی نظام کے چکروں میں پڑنے کی اجازت نہیں دے رہا اور نہ ہی کوئی قوت آئین تو ڑنے کا ایک اور جمہوریت کش تجربہ کرنے کے موڈ میںنظر آرہی ہے تو پھر کون ہے جو اسے صحیح قرار دے رہا ہے تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہی آنا ہے اور جب جواب نفی میں آنا ہے تو پھر یہ سمجھنے میں کون دیر کر سکتا ہے کہ صدارتی نظام کی باتیںوقت گذاری کا بہانہ ہیں چاہے جس طرف سے بھی ہو رہی ہیں بلکہ ہم تو یہ بھی کہے دیتے ہیںکہ یہ باتیں بلبلے کی مانند ہیں جن کی جھاگ کے اگلے د و اِک دِنو ں تک خو بخود بیٹھ جانے کے قومی امکانات ہیں۔
                                                

مزیدخبریں