آئینِ پاکستان کی رُوسے جب بھی حکومت اپنی مُدت پوری کرتی ہے یا قبل از وقت مدارالمہام ”جھٹکا“ مارتا ہے تو مقررہ تاریخ سے قبل نگران حکومت کا قیام عمل پذیر ہوتا ہے۔ ایسا صرف مملکت خداداد میں ہوتا ہے۔ کسی مہذب جمہوری ملک میں Incumbent Govt مستعفی نہیں ہوتی۔ وہ اپنا کام جاری رکھتی ہے کیونکہ صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے جس کے اختیارات اس محدود مدت میں بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ تک یہاں بھی برطانیہ، ہندوستان کی طرح حاضر حکومتیں مستعفی نہیں ہوتی تھیں۔
بھٹو نے اپنی ”نگرانی“ میں جب الیکشن کرائے تو ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ پہلے قائدِ عوام نے بلامقابلہ منتخب ہونے کی ریت ڈالی۔ جماعتِ اسلامی کے جان محمدعباسی کی جیت کا رائی بھر بھی امکان نہیں تھا لیکن متلون مزاج لیڈر انتظار کی تھوڑی سی شدت بھی برداشت کرنے کا روادار نہ تھا۔ ”جانو“ کو بٹھانے کیلئے وہی حربے استعمال کئے گئے جو ضدی اُونٹ پر آزمائے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ لاہور کے ایک وفاقی وزیر ملک اختر نے جب اپنے قد سے بڑی کلاشنکوف پر ہاتھ رکھا تو سارا شہر لرز اُٹھا۔ اُن گولیوں کی تڑ تڑاہٹ آج بھی تاریخ کے مدفن سے سُنائی دیتی ہے۔
بھٹو بلاشبہ ایک مقبول عوامی لیڈر تھا۔ سب طبل و علم کا مالک و مختار تھا۔ اکثر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اسے ایک سال قبل الیکشن کرانے کی کیا جلدی تھی؟ شیکسپیئر نے کہا تھا Hubris is Mortals Chiefest Enemy (حد سے بڑھتی ہوئی خوداعتماد بسااوقات آدمی کو لے ڈوبتی ہے) اُس نے سوچا ”آنا جانا ہی کرنا ہے۔“ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اصل وجہ کچھ اور تھی۔ وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ پہلے الیکشن میں کوئی قابلِ ذکر شخص اس کا ٹکٹ لینا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ اس ہمہ ہمی میں ایسے لوگ بھی منتخب ہو گئے جو نااہل تھے۔ پارلیمانی اصطبل میں گدھے گھوڑے میں تمیز برتنا مشکل ہو گیا۔ کچھ ایسے بھی آ گئے جن کے ”ماموں شاہی اصطبل کی آبرو تھے“
اُس تلخ تجربے کے بعد فیصلہ ہوا کہ حکومتِ وقت کا انتخاب کرانا عوامی مفاد میں نہیں ہے۔ ایسے لوگ چُنے جائیں جو غیر جانبدار ہوں۔ ہرسودوزیاں سے بے نیاز ہوں۔ الیکشن کے بعد اُس روایتی گڈریے کی طرح ”بھگل موڈھے“ پر رکھ کر کہیں، ”بھراووَ ! کھادا پیتا معاف کرنا“ اور ایوانِ اقتدار سے باہر نکل جائیں۔ آئین میں تبدیلی لانے والے بزرجمہر ایک بات بھول گئے۔ جانبدار لوگ غیر جانبدار نگران حکومت کا انتخاب کیسے کر پائیں گے؟
چنانچہ کچھ ایسی ہی صورتِ حال اب پنجاب میں پیدا ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اپنی شدید خواہش کے باوصف حکومت تو نہیں بچا سکے لیکن نگران حکومت کیلئے ”چیموں اور چٹھوں“ کے نام تجویز کر دئیے ، ساتھ دھمکی بھی دی کہ الیکشن کمیشن بالفرض انکے تجویز کردہ ناموں سے اتفاق نہیں کرتا تو اسے عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا اور نگران حکومت کو چلنے نہیںدیا جائے گا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کیلئے اپوزیشن کے نامزد کردہ امیدوار سید محسن نقوی کے تقرر کے بعد بھی یہی دھمکی دی ہے اور اس تقرر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین کے بقول نگران وزیراعلیٰ پنجاب انکے خلاف رجم چینج گیم کا حصہ رہے ہیں۔
ایک بات عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ تین ماہ کی قلیل مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بننا اور واپسی پر ہر قسم کی تہمت اپنے ذمے دھر چلنے میں کیا تک ہے۔ سیٹھی کے پینتیس پنکچر بڑے مشہور ہوئے۔ عمران خان نے سیاسی طور پر انہیں خوب رگیدا۔ بعد میں انہیں انعام سے نوازا گیا۔ کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی پکی ہوئی کھجور کی طرح ان کی جھولی میں آن گری تین ماہ یا تین سال! آدمی ازل ہی سے اقتدار کا بھوکا رہا ہے۔
One Crowded hour of glorious life is worth an age without a name.
لش پش کرتی ہوئی بُلٹ پروف قیمتی سرکاری گاڑیاں، ٹھک ٹھک سلیوٹ مارتے ہوئے پولیس اہلکار، مسلسل بجتے ہوئے ہوٹر کی آواز کانوں میں عجب رس گھولتی ہے۔ بقیہ زندگی بندہ ان الفاظ کے سہارے گزار دیتا ہے۔ When I was Chiefminster Punjab. باایں ہمہ امر واقعہ یہ ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ بالفرض کچھ چاہے بھی تو کسی پارٹی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ سرکاری اہلکار بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ انہیں فصلی بٹیروں کا علم ہوتا ہے۔ اس قلیل عرصے میں تو وہ ان کے نام تک یاد نہیں رکھ سکتا! تبادلوں پر الیکشن کمیشن نے ویسے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ روایتی تھانیدار نور دین اور تحصیل دار حکم دیں۔ نگران وزیر اعلیٰ انگشتِ حیرت بہ دہن سوچے گا۔ آخر یہ ہو کیا رہا ہے!