ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے ، وطن واپس آ رہا ہوں۔ شیخ رشید
اب بھلا کوئی جا کر شیخ جی سے پوچھے کہ جناب آخر آپ ان بُرے حالات میں لندن کیوں پدھارے تھے۔ کیا تب حالات اچھے تھے کہ اب آپ کو ملک میں خانہ جنگی کے حالات نظر آ رہے ہیں۔ فکر نہ کریں جب تک آپ جیسے لوگ موجود ہیں ملک میں خانہ جنگی کو کسی وقت کا انتظار کرنا نہیں پڑتا ۔وہ ہر وقت تیار رہتی ہے۔ یہ تو شکر ہے جن کے ہاتھ میں چھڑی کا آپ بار بارذکر کرکے انہیں مناتے ہوئے
روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی
بات کرے نہ دیکھو مجھ سے ظالم بڑا ہے ہرجائی
کا راگ درباری الاپ رہے ہیں وہ خانہ جنگی کی راہ روکے ہوئے ہے۔ ورنہ ملک کے حالات خراب کرنے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں کسی اور کو باہر سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کہتے پھرتے ہیں ملک میں عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ نہ کھانے کو روٹی ہے نہ قبرستان میں جگہ تو جناب آپ کے پاس یہ آئے روز کبھی لندن جانے کبھی دوبئی جانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ یہ قیمتی سگار جو آپ سلگائے رہتے ہیں اس کی قیمت میں تو ایک غریب گھر کی ایک دن کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ کیا اس کا کوئی جواب ہے۔
ہر امیر اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا سیاسی ٹولہ دن رات جن غریبوں کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے آخر وہ خود اپنے ذاتی مال و دولت سے اپنے اردگرد کے غربا کی مدد کیوں نہیں کرتا۔ کیا اس کام کے لیے بھی اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ ذرا جیبیں ڈھیلی کریں۔ راہِ خدا میں مال خرچ کریں تو لاکھوں غربا کو دو وقت کی روٹی میسر ہو سکتی ہے۔ مگر ایسا کوئی کرنے کو تیار نہیں ۔ کیا نون لیگ کیا پیپلز پارٹی اور کیا پی ٹی آئی۔ سب اربوں کھربوں کی مالک ہیں۔ مگر عوام پر ایک پیسہ بھی ذاتی گِرہ سے خرچنے کو تیار نہیں۔ یہی المیہ مذہبی جماعتوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کا بھی ہے۔ اس لیے شیخ جی کے آنے سے یا جانے سے کچھ نہیں ہوتا وہ یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ ان کے آنے سے خانہ جنگی رک سکتی ہے۔ ہاں البتہ اس کا خطرہ بڑھ ضرور سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ہنر مند اور مزدور کی اجرت میں 150 روپے اضافہ کر دیا گیا
بڑی مہربانی کی ہے پنجاب حکومت نے۔ اتنا بڑا اضافہ کے اس کی رقم سُن کر کہیں حاتم طائی کی روح بے چین نہ ہو جائے۔ مبلغ یک صد و پچاس روپے یعنی ڈیڑھ سو روپے۔ اس رقم میں ایک آدمی صرف ایک وقت کا کھانا کھا سکتا ہے۔ کیونکہ دال یا سبزی کی پلیٹ 100 روپے سے کم نہیں ملتی اور 50 روپے میں 2 نان آتے ہیں۔ اس عنایت خسروانہ پر تو سارے پنجاب کے ہنرمندوں اور مزدوروں کو چاہیے کہ وہ حکومت پنجاب کے اس فیصلے کے حق میں شہر شہر گائوں گائوں تہنیتی جلسے جلوس کر کے ا سے مبارکباد دیں جن میں ایک بینر یہ جلی حروف میں ’’تم یہ احسان نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا‘‘۔ ضرور لکھوائیں تاکہ حکومت کو ان کا درد بھی محسوس ہو۔
پہلے یہ ہنرمند اور مزدور 965 روپے روزانہ اجرت کا حقدار قرار پائے تھے اب انہیں ایک ہزار 60 روپے ملا کریں گے ۔ موجودہ حالات میں ہم حکومت پنجاب کی اس دریا دلی پر اسے صرف داد ہی دے سکتے ہیں کہ اس نے یہ فیصلہ کیا ورنہ معیشت کی بدحالی کے سبب تو وہ چپ ہی رہتی تو کسی نے کیا کر لینا تھا۔ گرچہ ’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘ کا بھی سب کو علم ہے مگر اس کا حل بھی ہماری کسی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ بڑے بڑے ماہرین معاشیات کو زرخرید لونڈی کی طرح گھر میں بٹھا رکھنے کے دعویدار بھی ابھی تک مزدوروں اور ہنر مندوں کو عزت کی زندگی بسر کرنے کے لیے وہ مواقع فراہم نہیں کر سکے جن کے وہ دعوے کرتے پھرتے ہیں۔
اب تک کوئی بھی اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکا۔ گرچہ بڑے شہروں میں مزدور اور ہنرمند حکومتی اعلان سے ہٹ کر من مانے ریٹ پر کام کرتے ہیں مگر چھوٹے شہروں اور دیہات میں ابھی ان کی بڑی تعداد :
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کرناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
کے مصداق کم اجرت پر ہی گزارہ کر رہی ہے اور ان کی زندگی واقعی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ ویسے ہی جیسے ساحر لدھیانوی کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ ان کی کڑوی اور تلخ و ترش باغیانہ شاعری سے بھرا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭
بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی، جلد سڑکوں پر نکلیں گے۔ ایم کیو ایم
ایک تو ایم کیو ایم والے بھی ابھی تک نرگسیت کے دور سے نہیں نکل پا رہے۔ لکھنؤکے نک چڑھے نوابوں کی طرح ہر وقت تیور چڑھائے رہتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر
جا بیٹھیے تنک کے ذرا مجھ سے پھر الگ
بن کچھ کہے سُنے بھی برا مان جائیے
والی کیفیت میں مبتلا رہتے۔ اس سے تو بہتر ہے ذرا تحمل مزاجی سے مل بیٹھ کر ہر مسئلہ کا ٹھنڈے دل سے حل تلاش کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہماری ہی سب مانی جائے کچھ اپنی منوائیں کچھ دوسروں کی مانیں تب جا کر راہیں آسان ہوتی ہیں ورنہ قدم قدم پر دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اول تو ایم کیو ایم کا بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا۔ میدان خالی چھوڑنے کا انجام پہلے بھی سب دیکھ چکے ہیں اب بھی وہی ہو رہا ہے۔ اگر تمام تر مشکلات کے باوجود ایم کیو ایم الیکشن میں حصہ لیتی تو آج پہلی تین پوزیشنوں میں سے کسی ایک پرفائز ہوئی۔ مگر بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا اور اب اس بات پر اترانے کے باوجود کہ عوام نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا بہت کم لوگوں نے ووٹ ڈالے اس رونے دھونے کا کسی پر کیا اثر ہو گا۔ رہی بات سڑکوں پر نکلنے کی تو کیا اس سے کبھی کوئی مسئلہ حل ہوا ہے۔ اس سے سوائے انتشار کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
اتنی بات البتہ اس بلدیاتی الیکشن کی بدولت ضرور ہوئی ہے کہ ایم کیو ایم کے علیحدہ ہونے والے سینہ چاکان ِوطن ایک بار پھر آ کر مل بیٹھے ہیں۔ خدا کرے یہ اتفاق ان کے لیے مبارک ہو اور وہ واقعی متحدہ قومی موومنٹ کی عملی تفسیر بن کر کراچی کے عوام کے لیے مسیحا ثابت ہوں اور اس شہر بے مثال سے رخصت ہونے والے امن، سکون و ترقی کو ایک بار پھر منا کر واپس لے آئیں۔
٭٭٭٭٭