شرح سود 16 سے بڑھ کر 17 فیصد مقرر 25برس  کی بلند ترین سطح : مہنگائی میں بدستور  اضافہ

Jan 24, 2023


کراچی (کامرس رپورٹر‘ نوائے وقت رپورٹ) گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد نے آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود میں 100 بیسسز پوائنٹس سے 1 فیصد اضافہ کا اعلان کردیا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد ہوگئی۔ گزشتہ روز کراچی میں سٹیٹ بنک کے ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس میں گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد نے 25 سال کی بلند ترین شرح سود کا اعلان کرتے ہوئے مانیٹری کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے  اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 100 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 17فیصد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کا دباؤ برقرار ہے اور مسلسل وسیع البنیاد ہے۔ اگر یہ دباؤ اسی طرح قائم رہا تو توقع سے زیادہ طویل مدت میں مہنگائی کی بلند توقعات پر منتج ہوسکتا ہے۔ ایم پی سی نے زور دیا کہ مہنگائی کی توقعات پر قابو پانا اور مستقبل میں پائیدار نمو کو تقویت دینے کے لیے قیمتوں کے استحکام کے مقصد کو حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ گذشتہ اجلاس کے بعد سے ایم پی سی نے خاص طور پر تین اہم معاشی پیش رفتیں نوٹ کیں۔ اول، نومبر اور دسمبر میں کچھ اعتدال کے باوجود مہنگائی بدستور بلند ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قوزی مہنگائی میں پچھلے دس ماہ سے مسلسل اضافے کا  رجحان ہے۔ مزید یہ کہ حالیہ پلس سرویز سے صارفین اور کاروباری طبقے کی مہنگائی کی توقعات میں اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ دوم، بیرونی شعبے کے لیے قریب مدتی چیلنجز جاری کھاتے کے خسارے میں پالیسی کی بنا پر آنے والے سکڑاؤ کے باوجود بڑھے ہیں۔ نئی رقوم کے آمد کے فقدان اور قرضے کی جاری واپسی کے نتیجے میں سرکاری ذخائر مسلسل کم ہوئے ہیں۔ سوم، قریب تا مختصر مدت میں عالمی معاشی اور مالی حالات مجموعی طور پر غیریقینی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی معیشت کے لیے ملے جلے مضمرات ظاہر ہوتے ہیں۔ عالمی طلب میں متوقع سست روی پاکستان سمیت ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر کے منظر نامے پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ دوسری جانب اجناس کی عالمی قیمتوں میں کچھ اعتدال سے مہنگائی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 100 بیس پوائنٹس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد اب شرح سود ایک فیصد اضافے سے 16 سے بڑھا کر 17 فیصد کی جارہی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ نئے انفلوز آنے میں تاخیر کا سامنا ہے جس سے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے، عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کے لیے بھی بے یقینی کی صورتحال ہے اور عالمی حالات سے ترسیلات اور ایکسپورٹ پر اثر آرہا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ معاشی ترقی کی شرح نمو کا 2 فیصد کا ہدف حاصل کرنا دشوار ہوگا، کاروباری حالات اور درآمدات کے مسائل شرح نمو پر اثر انداز ہوں گے، لارج سکیل مینو فیکچرنگ بھی دباؤ کا شکار ہے، جولائی دسمبر جاری کھاتے کا خسارہ 3.7 ارب ڈالر رہا، جاری کھاتے کا خسارہ 10 ارب ڈالر سے بھی کم رہنے  یعنی 9 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کی کافی ادائیگی کرچکے ہیں جن سے زر مبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑا،  مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ ناگزیر تھا، مارکیٹ بیس ایکس چینج ریٹ پر ہی عمل کیا جارہا ہے، مارکیٹ کے پیرامیٹرز پر ریٹ میں تبدیلی ہوتی ہے۔ گورنر نے کہا کہ روپے کی قدر میں سٹے بازی کا رجحان ہے، بیرونی فنانسنگ کی ضروریات اور قرضوں کی ادائیگی کی ضرورت کی وجہ سے مارکیٹ میں ریٹ ہائی ہے، آئی ایم ایف ریویو پورا ہونے اور انفلوز آنے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2.2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی حد دو بارہ بحال ہوگی، خالص قرضے پانچ ماہ میں 3 ارب ڈالر سے کم ہیں جن کی ادائیگی کرنی ہے، تین ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کی ادائیگی نہیں کرنی ہوگی، سود کی مد میں دو ارب ڈالر ادا کیے مزید ایک ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کریں گے۔  انہوں نے کہا کہ شرح مبادلہ میں زیادہ اتار چڑھاؤ کے دوران بینکوں نے صرف جولائی سے ستمبر کے دوران 100 ارب روپے کمائے، میں نے 13 بینکوں کا معائنہ کیا، بینکوں کے خلاف تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں، ریگولیٹری اور فسکل تادیبی اقدامات کریں گے، ڈالر کے اتار چڑھاؤ میں پیسہ بنانے والے بینکوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ برآمدات میں کمی کی وجہ عالمی منڈیوں کے حالات ہیں، ہمارے مسائل بھی برآمدات پر اثر انداز ہورہے ہیں، امپورٹ کے لیے برآمدی شعبہ کو ترجیح دی جارہی ہے، ایکسپورٹرز کے لیے برآمدی آمدن سپیشل اکاؤنٹ میں رکھنے کی 10 فیصد کی حد کو بھی درآمدات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی ایکسپورٹ کمپنیوں کے بھی حقیقی مسائل حل کررہے ہیں، بینکوں کے لیے لازم کردیا کہ آئی ٹی ایکسپورٹ کی 35 فیصد آمدن ایکسپورٹرز کے سپیشل اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جائے، آئی ٹی کمپنیاں اپنی آمدن زیادہ آسانی سے استعمال کرسکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک تعلیمی اخراجات بھیجنے پر کوئی پابندی نہیں، تعلیمی اخراجات انٹر بینک ریٹ پر بھجوائے جاسکتے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ قرضوں پر انحصار پرانا مسئلہ ہے، امپورٹ کم کرنے ترسیلات ایکسپورٹ اور دیگر ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے، فوری فنانسنگ قرض کے ذریعے ہی پوری کرنا پڑے گی، امپورٹ کم کرنے پر چھ ماہ سے توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کے اوپر کوئی پابندی نہیں، فارن کرنسی اکاؤنٹس سے زرمبادلہ نکالنے پر کوئی پابندی نہیں، بینکوں کو ہدایت کی کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو ڈالر دیں، کسی بینک کے پاس ڈالر نہ ہوں تو سٹیٹ بینک فراہم کرے گا۔  جمیل احمد خان کا کہنا تھا کہ ترقی کی شرح 2 فیصد سے کم رہ سکتی ہے، معیشت پر دباؤ برقرار رہا تو مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے، انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے بعد ڈالر آئیں گے جس سے صورتحال بہتر ہوگی۔ جمیل احمد خان نے کہا کہ مہنگائی کا زور ہے، قیمتوں میں استحکام ضروری ہے، قرضوں کی ادائیگیوں کا اثر ہمارے ریزرو پر پڑتا ہے، ہم اپنے ٹارگٹ کے مطابق چل رہے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی سے دسمبر تک 3.7 ارب ڈالر ہے، درآمدات کا کافی فرق آ رہا ہے، امپورٹ، ایکسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے گروتھ پر منفی اثر آئے گا۔ گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ دو ارب ڈالر سود ادا کر چکے ہیں، اگلے چار سے پانچ ماہ میں ایک ارب ڈالر مزید سود ادا کرنا ہے، جولائی سے جنوری تک بڑے بڑے قرضے واپس کیے، ڈالرز کی غیر قانونی خرید و فروخت پر ایکشن لیا جا رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ کی بے یقینی صورتحال کا بھی پاکستان پر اثر پڑ رہا ہے، وزارت خزانہ آئی ایم ایف سے رابطے میں ہے، جلد پراگریس ہو گی۔ منی بجٹ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بات کا جواب وزارت خزانہ ہی دے گی۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مہنگائی میں اضافے کا رجحان ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود بڑھائی گئی۔ درآمدات میں کافی فرق آ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ 2 فیصد کم رہ سکتی ہے۔ شرح مبادلہ مارکیٹ کے مطابق ہے۔ ڈالرز نہیں آرہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ہے۔ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے بعد ڈالرز آئیں گے جس کے بعد زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ میں کمی آ ئے گی۔ درآمدات اور برآمدات کے مسائل سے گروتھ پر منفی اثر پڑے گا۔ پانچ ماہ میں تقریباً 3 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاملات پر جلد پیشرفت کا امکان ہے۔ ترسیلات زر میں کمی آئی ہے۔ بڑی صنعتوں کی گروتھ کم ہو رہی ہے۔ ڈالر خریدنے والے بنکوں کیخلاف ایکشن ہو گا۔
شرح سود

مزیدخبریں