پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کی رخنہ اندازی کی تمام کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سید محسن رضا نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کردیاہے۔ انھیں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز شریف کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے رہنماؤں نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی اس تقرری کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے۔ اس حوالے سے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دستور میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جس کے تحت الیکشن کمیشن کی طرف سے کیے گئے مذکورہ فیصلے کو چیلنج کیا جاسکے تاہم عدالت عظمیٰ آئین کی تشریح کا حق محفوظ رکھتی ہے، لہٰذا اس صورتحال میں عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ معاملات کو نئے زاویے سے جانچ کر یہ فیصلہ کرے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کس حد تک موزوں ہے۔
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی الیکشن کمیشن کی جانب سے تقرری سے پہلے آئین کے مطابق حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کے پاس موقع تھا کہ وہ باہمی مشاورت سے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیں لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ حکومت اور اپوزیشن کے قائدین، چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز شریف جب کسی نتیجے پر متفق نہیں ہوسکے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا اور وہاں بھی عدم اتفاق کے باعث آئین کی دفعہ224 اے کے تحت یہ اختیار الیکشن کمیشن کو مل گیا کہ وہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے نامزد کردہ افراد میں سے کسی ایک کا دو روز کے اندر بطور نگران وزیراعلیٰ تقرر عمل میں لائے۔ مذکورہ شق کے تحت الیکشن کمیشن کو نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے لیے ملنے والی معیاد اتوار کی رات دس بجے ختم ہونا تھی جس سے پہلے محسن نقوی کی تقرری کا فیصلہ کرلیا گیا۔ قبل ازیں، اس سلسلے میں ہفتے کے روز ہونے والا الیکشن کمیشن کا اجلاس بے نتیجہ رہا تھا۔
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دشمن کو پنجاب کی سربراہی سونپ دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) ماضی میں بھی اپنی مرضی کے امپائر لگواتی آئی ہے لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے غیر جانبدار عہدے کے لیے پی ٹی آئی کے ایک دشمن کا انتخاب کیا ہے۔ ادھر، نو منتخب نگران وزیراعلیٰ پر تنقید کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ حارث سٹیل مل کیس میں پینتیس لاکھ روپے کی پلی بارگین کرنے والے شخص سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ محسن نقوی کا چودھری برادران سے قریبی تعلق بھی ہے، لہٰذا پرویز الٰہی نے اس مسئلے کو بھی زیر بحث لارہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ دار کو نگران وزیراعلیٰ مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک متنازعہ شخص کا تقرر کیا ہے اس لیے ان کی جماعت اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر جائے گی۔
نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے لیے پرویز الٰہی نے سردار احمد نواز سکھیرا اور نوید اکرم چیمہ کے نام تجویز کیے تھے جبکہ حمزہ شہباز نے محسن نقوی اور احد چیمہ کے ناموں کی توثیق کی تھی۔ ان ناموں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محسن نقوی کی بجائے اگر احد چیمہ کا بطور نگران وزیراعلیٰ تقرر ہوتا پی ٹی آئی اور قاف لیگ نے تب بھی شور مچانا ہی تھا اور ان کی تسلی صرف اسی صورت میں ہوسکتی تھی کہ الیکشن کمیشن ان کے نامزد کردہ افراد میں سے کسی ایک کو نگران وزیراعلیٰ بنا دیتا۔ خیر، سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے محسن رضا نقوی کو پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ مقرر کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے چار ناموں میں سے محسن نقوی بہترین انتخاب ہیں۔ انھوں نے کبھی الیکشن لڑا نہ کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ بنے۔
الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ کیا وہ آئین کے مطابق ہے، لہٰذا اب پی ٹی آئی اور قاف لیگ کو ایک نئی بحث چھیڑنے اور معاملات کو مزید الجھانے کی بجائے انتخابات کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔ ملک اور صوبے کو درپیش مسائل کی وجہ سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں، سیاسی رسہ کشی ان کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ سیاسی قیادت کو اب غیر سنجیدگی چھوڑ کر ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے جن کی مدد سے قومی اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ عوام کے جمہوریت اور جمہوری اداروں پر مسلسل گرتے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کا یہی طریقہ ہے۔