پاکستان کو ڈالرز کی شدید قلت کا سامنا ہے - سٹیٹ بنک کے پاس محض 4 ارب ڈالر ز کے ذخائر رہ گئے ہیں جو بمشکل 2 ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں ملکی بنکس درآمد کنندگان کے لیٹر آف کریڈٹ یعنی ایل سی کھولنے سے انکاری ہیں جسکی وجہ سے ضروری اشیاء اور برآمدات میں استعمال ہونے والے خام مال کی شدید قلت کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی بحران نے مہنگائی، بیروزگاری، ادویات اور درآمدی گھی کی بھی قلت پیدا کر دی ہے۔ ان حالات میں اشیائے تعیش کی درآمدات کی تو حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے(حالانکہ ورلڈ ٹریڈ یونین کے معاہدوں کی وجہ سے ہم دوسرے ممالک کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتے ہیں) لیکن ڈالرز کے ناپید ہو نے سے جہاں حکومت کے پی ایس ڈی پی پر وگرامز دیا میر بھاشا، مہمند ڈیم، اب رسانی کا منصوبہ k__4,وارسک کینال کی ری ماڈلنگ اور باسول ڈیم کی تعمیر ات کو روک دیا گیا ہے وہیں بنکوں کی طرف سے سی ایل نہ کھلنے کی وجہ سے ملک میں 150 سے زائد سپنگ ملز بند ہو چکی ہیں جس سے ہزاروں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں- آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل، دالوں، گھی اور ادویات کی قلت کا شدید بحران پیدا ہو نے کے خدشات نظر آرہے ہیں _ڈالرز کی قلت کے باعث غیر ملکی شپنگ کمپنیوں نے اپنی خدمات کی فراہمی معطل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، پاکستان شپنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن نے سٹیٹ بینک کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کر نے کے لئے خط تحریر کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی ماہانہ 900 ملین ڈالرز کی برآمدگی کارگو کی ترسیل بھی بند ہو جائے گی اور تو پاکستان کی 90 فیصد بین الاقوامی تجارت کا سلسلہ رک جائے گا کیونکہ چین، افغانستان اور بھارت کے علاوہ پاکستان کی زیادہ تر تجارت کی رسد کھلے سمندر کے ذریعے ہوتی ہے۔
ان حالات میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار رجائیت پسند optimistic دکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر مفتاح اسماعیل اپنا راگ الاپ رہا ہے کہ اکتوبر تک حالات ٹھیک تھے مگر آب دو تین ماہ سے چیزیں خراب ہو گئی ہیں مسلم لیگ کے سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم خاقان عباسی معاشی تباہی کو ناگزیر قرار دیں گے تو معاشی بے یقینی میں تو یقیناً اضافہ ہو گا اور اس پر جب عمران خان figures Facts and کے ساتھ اپنے دور کا موازنہ موجودہ حکومت کے دور سے کریں گے تو کوئی عقل کا اندھا ہی شہباز حکومت کی معاشی کارکردگی کو درست قرار دے سکتا ہے۔ اب تو نواز شریف بھی اس حکومت کی کارکردگی کی ذمہ داری قبول کر نے کی بجائے کہتے ہیں کہ عمران خان کے چار سال کی مدت کا. میرے چار سال کے دور سے موازنہ کیا جائے تو پھر میاں نواز شریف کے دور حکومت کی معاشی کارکردگی کا موازنہ شوکت عزیز کے دور سے کیوں نہ کیا جائے جب پاکستان نے IMF کے پروگرام کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
پاکستان کی معیشت اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے۔ مریض مصنوعی سانسوں پر چل رہا ہے۔ اشرافیہ نے ویمپا ہرز کی طرح اس کے خون کو مکمل چوس لیا ہے یہ معاشی تباہی کے منحوس دائرے کے مدار سے نہیں نکل سکتا کیونکہ بقول معاشی تجزیہ کار، پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 2.5 ٹرلین خالص آمدنی کے مقابلے میں قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر 3.2 ٹریلین خرچ کئے ہیں جو ہماری خالص آمدنی کے 128 فیصد ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف 147 ارب خرچ ہوئے ہیں _یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ان دو مدوں میں خرچ ہونے والے اخراجات خالص وفاقی آمدنی سے 708 ارب روپے زیادہ ہیں جب ہم چھ ماہ میں 69 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ کر دیں گے تو کیسے کوئی اسحاق ڈار ہو یا شوکت ترین ہو کتنا بھی زیر ک ہو یا مفتاح کی طرح کھلنڈرا اور خاقان عباسی کی طرح غریبوں کی نشتر زنی کا ماہر ہو، اسد عمر کی طرح کتابی اکنامکس کا ماہر ہو وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ بقول شبر زیدی ہم ٹیکنیکل ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔
ہماری لائف لائن مختصر مدت کے لئے آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے لیے روڈ میپ وضع کر لیا ہے جس میں 400 ارب کا منی بجٹ کے ذریعے بجلی کی قیمت 7.50 روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ ہے کیونکہ توانائی کے شعبے میں 4 ٹریلین اور گیس کے سیکٹر میں 1640 ارب کا خسارہ موجود ہے۔ ڈالرز کو فری فلوٹ کیا جائے گا جس سے اس کا مارکیٹ ریٹ 270 روپے کے اردگرد ٹھہرے گا۔ ان حالات میں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے مگر غریب آدمی پر اسکا بوجھ نہ پڑے۔ کیسے ممکن ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی اور بلو اسطہ ٹیکسوں میں اضافے سے افراط زر میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو۔
پہلے کچھ معاشی ماہرین اور سیاست دان خیال کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے بغیر بھی Multilateral grants and loansحاصل کی جا سکتی ہیں اسحاق ڈار بھی اسی سوچ کے حامل تھے مگر اب ہمارے دوست سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ہم پاکستان میں 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو جواب میں پاکستان کو بھی معاشی اصلاحات کرنی ہوں گی۔سعودی عرب کے وزیر خزانہ کا واضح اشارہ اس طرف ہے کہ وہ آئندہ سےArticle for consultation کے تحت ہی پاکستان کو قرض دیگا۔ اس کیلئے آئی ایم ایف سے منظوری ضروری ہوگی۔ آج شاید خاقان بھی یہی بات کر رہا ہے۔
کبھی اس کا خیال تھا کہ قرضے لے کر گروتھ بڑھا کر قرضے واپس کیے جا سکتے ہیں مگر اس فلسفے میں ہم کرنٹ َکاونٹ اور تجارتی خسارے کا ایسا شکار ہوئے ہیں کہ گروتھ کا تیا پانچہ ہونے کے ساتھ doing business Cost of اسقدر بڑھ گئی ہے کہ صنعتی اور زرعی ترقی کے خواب بھی ادھورے رہ گئے ہیں اور اوپر سے بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلی، بیروزگاری اور سیاسی پولرائشن نے ملکی سلامتی کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے کیوں کہ اقتدار کی جنگ میں طاقتور اشرافیہ بھی گتھم گتھا ہے۔ یہ عوام کو اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے ایندھن بنانے پر لگے ہوئے ہیں اور ملک میں شدید عدم برداشت اسکو انار کی کی طرف دھکیل رہی ہے۔