محبتی سے محبتی تک


 لاہور سے علی انوار نے فون کر کے کہا کہ خالد چوہدری بھی چل بسے!جانا تو سب نے ہی ہے لیکن سچی بات ہے کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ چوہدری صاحب بھی مر سکتے ہیں ۔کیا خوبصورت آدمی تھے۔دھیمے اور محبت میں بھیگے لہجے کے سوا انہیں کچھ معلوم ہی نہیں تھا شاید۔ برادرم آصف محمود نے اپنی پوسٹ کو محبتی کی موت کا عنوان دیا تو میں حیران رہ گیا کہ بھلا اتنے فکری تفاوت کے باعث یہ ایک دوسرے کو کیسے ہضم ہوتے ہوں گے ؟ حیرت سے زیادہ غصہ مجھے "محبتی" کے استعمال پر تھا کہ اتنے سامنے کی بات مجھے کیوں نہیں سوجھی؟
خیر آصف محمود سے بات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ چوہدری صاحب کو یہ لقب وجاہت مسعود صاحب نے دیا تھا۔ظاہر ہے وہ بڑے آدمی ہیں لیکن اس سے میری "جلن" کم نہیں ہورہی کہ یہ خیال مجھے کیوں نہیں سوجھا؟
نوے کی دہائی میں مجھے ان کے بارے آشنائی ہوئی لیکن وہ مجھے نہیں جانتے تھے ۔پھر ہلکی پھلکی ملاقات ہوئی اور تنویر عباس نقوی مرحوم نے میرا تعارف کرایا۔مجھے اس دور میں بے تکلفی پیدا کرنے کیلئے ایک ہی چالاکی آتی تھی کہ سگریٹ مانگ لیتا حالانکہ تب مجھے یہ لت لگی نہیں تھی ۔عباس اطہر ،حسن نثار ،خالد چوہدری سب ایک ہی برانڈ پیتے تھے ۔تنویر عباس نقوی کی جیب میں بھی جب پیسے ہوتے تو وہ بھی وہی لیتا گویاسب کے سگریٹ ایک ہی تھے اور ان کی ڈبیوں میں سے "مفتا' بھی ایک ہی شخص لگا رہا تھا.بے تکلفی تو ان سب سے ہوگئی لیکن وہی سگریٹ آج مجھے خرید کر پینے پڑتے ہیں،سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں۔پھر مجھے اس ڈیسک پر نوکری مل گئی جہاں خالد چوہدری اور ریاض صحافی پہلے سے موجود تھے۔چوہدری صاحب انگریزی سے اردو میں خبریں ترجمہ کیا کرتے ۔مجھے یاد ہے چند دنوں بعد چوہدری صاحب نے مجھے ایک لفظ دکھایا کہ یہ کیاہے ؟ اللہ جانے انکے ذہن سے نکلا ہوا تھا کہ میرا امتحان مقصود تھا۔بہرحال میری خوش قسمتی سمجھئے یا ڈھیروں ڈائجسٹ پڑھنے کا اعجاز کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ خواب آور گولیاں ہیں۔ بہرحال سگریٹ سے بات شروع ہوئی اور آگے تک گئی۔
میں خوش تھا کہ مجھے بڑے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع مل رہا ہے۔خالد چوہدری ایک معصوم آدمی تھا کبھی کبھی ان کی معصومیت پر مجھے شک گزرتا کہ کیا کوئی اتنا بھی سادہ ہو سکتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے یقین آگیا کہ وہ اندر باہر سے ایک ہی ہے۔ اس وقت تک چوہدری صاحب آدھی دنیا گھوم چکے تھے اور شاہی قلعے میں ضیاء آمریت کی سختیاں بھی بھولنے لگ گئے تھے۔ وہ چی گویرا سے سخت متاثر لیکن عدم تشدد والی جدوجہد کے راہی تھے۔کبھی غصے میں بھی ان کو اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ان دنوں وہ والدہ کے ساتھ کینال پارک گلبرگ میں رہتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ وہ میرے پاس میرے فلیٹ میں بھی رہے ۔میں تب فیصل ٹاؤن سوک سینٹر کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا ۔اسی دوران مجھے انہیں بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔ذوالفقار علی بھٹو ،پیپلز پارٹی کے واقعات ،شاہی قلعے کی صعوبتیں اور دنیا بھر گھومنے پھرنے کے قصے ۔
مجھے سب سے زیادہ دلچسپی اس واقعے سے تھی کہ کیسے ان کی جرمن بیوی ذوالفقار علی بھٹو کی آخری کتاب " اگر مجھے قتل کر دیا گیا" کا مسودہ بیرون ملک سمگل کرنے میں کامیاب رہیں۔پھر ان کے مقدمے کی روداد کہ کیسے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں مارشل لاء عدالت میں مقدمہ چلا ۔دو، چار سال پہلے انکے وکیل اعتزاز احسن سے ملاقات ہوئی تو مزید تفصیلات بھی معلوم ہوئیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو انہیں بھائی خالد کے نام سے پکارا کرتی تھیں۔ میرے فلیٹ سے جب وہ گئے تو اچھرہ سٹاپ پر ایک فلیٹ لے لیا۔مجھے اندازہ تھا کہ یہ کوئی رومانی معاملہ ہے جس میں ظالم سماج حسب عادت رکاوٹ ہے ۔ میں ان خاتون سے بھی ملا جو تب بیمار تھیں اور کسی دوسرے شہر سے علاج کی غرض سے آیا کرتیں ۔سچ پوچھیے تو مجھے آخر تک شبہ ہی رہا کہ وہ محبت میں مبتلا ہیں یا ہمدردی میں۔حالات ہم سبھی کے اچھے نہیں تھے تو بس مل جل کر گزارا چل جاتا تھا۔پھر وہ ایک اخبار میں ہمارے جوائنٹ ایڈیٹر بن گئے جہاں قبلہ آصف عفان کی رگ شرارت اکثر پھڑک اٹھتی اور چوہدری صاحب کی معصومیت کا امتحان ہوتا لیکن وہ ہمیشہ سو بٹا سو نمبروں کے ساتھ پاس ہوئے.ہاں جب سوچ بچار میں ہوتے تو مونچھیں نا ہونے کا بدلہ اپنی بھنوؤں سے لیتے اور خوب بل دیتے۔دو،تین سال پہلے لاہور گیا ملاقات کی تو وہ ڈیفنس کے شاندار گھر میں رہائش پذیر تھے اور معاشی خوشحالی کے سبب پہلے سے زیادہ خوبصورت بھی۔اس رات آخری بار انکے ساتھ طویل نشست وہیں کسی دفتر میں ہوئی ۔پھر بہت پر تکلف کھانا۔وقت رخصت بڑی دیر ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہے اور بار بار کہتے " یار مجھے تیرے آنے کی بہت خوشی ہے،اب رابطہ نا توڑنا".میں سدا کا بھلکڑ بھول گیا۔وہ آخری دم تک نہیں بھولے، روز صبح میرے اٹھنے سے پہلے میرے فون میں ان کا پیغام موجود ہوتا تھا،کبھی کبھار شرمندگی کے مارے فون کرلیتا اور سمجھتا کہ حق ادا ہوگیا۔بہرحال چوہدری معصوم آدمی ہے اسے چکر دینا بہت آسان ہے اوپر جاکر بھی آصف عفان کی منت سماجت کروں گا وہ مجھے چوہدری سے معافی دلوا ہی دیگا.ایک محبتی تو چلاگیا لیکن اسکے جانے کی خبر مجھے ایک دوسرے محبتی نے دی۔
علی انوار سے میری ملاقات نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں میڈیا ورکشاپ کے دوران ہوئی تو مجھے ہرگز علم نہیں تھا کہ یہ صاحب نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں ۔خاموش طبع گول مٹول اور وسیم بادامی کی ہمارے ساتھ موجودگی کے باوجود علی کے سوال زیادہ معصومانہ ہوتے۔جیسا میں نے عرض کیا کہ یہ بھی محبتی ہے لیکن ذرا"وکھری ٹائپ" کا، اسے پاکستان سے محبت ہے اور دیوانگی کی حد تک ۔اس نے اپنے کالم کا مستقل عنوان بھی پاکستانیت رکھا ہے۔یہ محبتی پاکستان کی محبت میں سیاست کو بھی ترک کر چکا ۔ میرے نزدیک تو وہ بنا بنایا سیاستدان ہے کہ جاگیر دارانہ خاندانی پس منظر اور ایچی سن کالج کی تعلیم پر امریکی اعلیٰ ڈگری کا تڑکااسے کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے قابل قبول بناتی ہے لیکن صرف ایک الیکشن کے بعد ہی اس نے سیاست پر چارحرف بھیج دئیے تھے ۔ اب اسکی گفتگو صرف اور صرف عوامی مسائل کا ہی طواف کرتی ہے ۔جب اسکے ساتھ بات ہوئی تو خوشی ہوئی کہ اسے صرف مسائل کا ہی ادراک نہیں بلکہ اسے حل اور کوشش کی اہمیت کا بھی پتا ہے۔اسکے بقول پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اسلئے اسکی ترقی پورے ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے
 انفراسٹرکچر کی بحالی اور بہتری ، زراعت کی اہمیت اور اس سے منسلک منصوبوں کی تکمیل کو وہ کسان کی خوشحالی کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ راشن سسٹم ، محکمہ مال اور صنعتوں کی ترقی کی ترجیح سے آگاہ ہے اسے معلوم ہے کہ صنعتوں کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب انہیں توانائی ملے گی اور توانائی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ بنگلہ دیشی ماڈل کو بھی دیکھنا ہوگا، جہاں بجلی بنانے کیلئے ریموٹ ایریاز نوجوان انجینئرز کو الاٹ کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ خود سے بجلی بنا کر نیشنل ٹرانسمیشن میں شامل کریں اس سے ایک تو بجلی کی پیداوار ہو گی اور دوسرا بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔بہرحال پاکستان کا یہ محبتی ابھی تازہ دم ہے ۔مجھے ڈر ہے یہ اور اس جیسے پاکستان کے دوسرے محبتی کسی دوسرے ملک کو پیارے نہ ہو جائیں ۔ رہا خالد چوہدری کارونا تو ہم دوستوں کی آپس کی بات ہے۔ ہم روتے رہیں گے‘ ایک دو دن کی بات تھوڑی ہے!
 

ای پیپر دی نیشن