فلمیں اور ڈبہ لیڈر

Jan 24, 2023

عترت جعفری


اب تو بیس ،پچیس سال ہو گئے سینما ہال میں جا کر فلم نہیں دیکھی مگر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا جب شام کی سیر کے دوران سینمائوں کا چکر لگانا معمول ہوا کرتا تھا ،اخبارات کے صفحات فلموں کی تشہیر سے بھرے ہوئے ہوتے تھے اور انکی سرکولیشن میں فلمی ایڈیشن کا بہت کردار ہوا کرتا تھا،تربیلہ ڈیم میں دو اور قرب وجوار میں بھی دو سینماء گھر تھے جن میں سے  اب صرف ایک باقی ہے جوبہت سخت جان ثابت ہوا، تربیلہ کا اتک سینماء آگ کی نذر ہو گیا،واپڈا انتظامیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی تعمیر نو کرتی یا کم از کم سابق ٹھیکہ دار آئی آر سی کا کالونی میں بنامتروک سینماء ہی چالو رکھتی ،جب فلم بینی کو شوق تھا تو اس فیلڈ میں استعمال ہونیوالے الفاظ بھی کان میں پڑ جایا کرتے تھے۔ 
 پھر جنرل ضیاء کا دور آیا جس نے معاشرے کو کھانا شروع کر دیا ،ادب ،ثقافت،آرٹ سمیت سب ہی شعبے اس کی نذر ہوئے اور جان بوجھ کو ان کو تباہ کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی تاکہ نوجوانوں کی توجہ کو ماردھاڑ کی طرف مبذول کیا جائے ،یہ سوچی سمجھی سکیم تھی اس دور ناگفتہ بہہ میں جو فلمیںبنائی گئیں وہ سب کی سب جنگجویانہ جذبات کی تسکین کیلئے تھیں،بہرحال اس وقت ان کا بیان مقصود نہیں ، اس دور میں ڈبہ فلم ‘‘ کے الفاظ کانوں میں پڑ جایا کرتے تھے ،کسی سے مطلب پوچھا تو اس نے بتایاکہ کچھ فلمیں بنتی ہیں مگر چلتی نہیںیا بننے کے دوران کسی نہ کسی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں اور ڈبوں میں بند پڑی رہ جاتی ہیں، یہ بات ذہن میں رہی ،خاکسار ایک روز پی پی پی کے چیف میڈیا رابطہ کار نذیر ڈھوکی سے محو گفتگو تھا اچانک منہ سے نکلاکہ ڈبہ فلموں کی طرح ڈبہ سیاستدان بھی ہیں اور ہر جماعت میں رونق افروز ہیں اور بہت سی جماعتیں ، ڈبہ جماعتیں ہیں،کہنے لگے کہ یہ ڈبہ سیاست دان کیا ہوتے ہیں،خاکسار نے کہا جن کو سیاست میں نہیں ہونا چاہئے تھا وہی ڈبہ سیاست دان ہیں،بس کسی نہ کسی وجہ سے مسلط ہو گئے ہیں۔
ڈبہ سیاست دان بہت خطرناک ہیں ،یہ بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں ، ڈبہ فلم کی طرح ان کی کہانی ایک جیسی ہے اور نہ انکا کوئی پر خلوص مطمع نظر ہے ،معیشت تو انکے قریب سے بھی ہو کر نہیں گذری ہوتی، اخلاقیات ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں،یہ سہارے کے متلاشی ہوتے ہیں ،’’ٹیک‘‘ ملنے پر ان جیسا ضدی کوئی نہیں ،کمیں گاہ میں کوئی نہ ہو تو انکے یو ٹرن کی مثال ملنا مشکل ہے یہ خود ہی مثال ہیں، ڈبہ سیاست دان منفی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ،انکی تربیت اور پیش کش صرف اور صرف ثقہ سیاست دانوں ،دلوں پر راج کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کیلئے کی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ایسے سیاست دان اپنا رول ادا کرنے کے بعد بے وقعت سے ہو جاتے ہیں ،یہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ اور غلط وقت پر بہت ہی غلط فیصلہ کرتے ہیں ،ان کا وژن محدود اور مقصد دوسرے کو تکلیف دینا ہوتا ہے ،انکی کوئی غیر خلاقی حرکت سامنے آئے تو جواز دیتے ہیں اور خود بات کر رہے ہوں تو گھنٹوں دوسروں پر بے سروپا الزامات لگاتے ہیں ،یہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے سر ڈالتے ہیں اور اپنی کج روی کو خوبی گرادنتے ہیں،پہلے یہ جماعتوں میں ہوا کرتے تھے اب جماعتیں انکے تحت بنتی ہیں، جب اتنی نشانیاں موجود ہوں تو انکی شناخت بہت ہی آسان ہو جاتی ہے مگر کیا کیا جائے معاشرے کے معیار بدل گئے ، دعوے کو اہمیت مل گئی اور عمل پیچھے رہ گیا ،ڈبہ فلمیں تو دفتر سے نکل نہیں پاتی تھیں یا چند روز چل کر پٹ جاتی تھیں اور اپنے سرمایہ کار کو لے ڈوبتی تھیں ،مگر دنیا میں عمومی اور ملک میں خاص طور پر ان ڈبہ لیڈروں کا گراف  بہت بلند ہے یہ غلط ہیں مگر اس کو مانتے نہیں ۔ 
ڈبہ لیڈروں کی وجہ سے کس طرح کی پود پیدا ہو چکی ہے۔ اس کا اندازہ سب کو ہے ،پہلے کلاشنکوف کلچر آیا ،پھر ہیروئن آ گئی ،انتہاپسندی صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ،اسکے بطن سے نئے لیڈر اور نئی جماعتیں بنیں،زبان ،مذہب ،علاقہ غرض کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے جو ڈبہ لیڈر متعارف کرانے کیلئے استعمال نہ کی گئی ہو ،مگر ہوش کے ناخن نہیں لئے گئے ،یوں ہی سلسلہ چل رہا ہے،مگر ہر رویہ اور ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے ،جو ہو کر رہتا ہے ،یہ جو تقسیم در تقسیم ہے ،یہ جو نفرت اورذاتی دشمنی تک جانے والی سیاست ہے ،یہ اسی کا شاخسانہ تو ہے ،ڈبہ لیڈر بنانے کا عمل رکنا چاہئے ،ورنہ ملک کو لے بیٹھے گا،نذیر ڈھوکی کہنے لگے کہ ہماری جماعت تو جنیوئن ہے ،اس میں ایسے لیڈر نہیں ہوا کرتے،ہوں تو چل نہیں پاتے،اور چھوڑ جاتے ہیں۔
66ء سے لے کر آج تک پی پی پی سے بڑھ کر کس نے قربانی دی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ اب جب ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا تھا تو بلاول بھٹو نے کس طرح سے ملک کا کیس پیش کیا ،یہ 9ارب ڈالر سے زیادہ مددکے وعدے ے ایسے ہی آگئے؟ ،مہنیوں ملک ،ملک جا کر پاکستان کا مقدمہ لڑا ہے ،ڈبہ سیاست دان کہیں اور ہوں گے ،ہمارے پاس نہیں ہوتے ، خیر نذیر ڈھوکی سے رگ پی پی پھڑک جانے پربحث تو کرنا نہیں تھی ، خاکسار نے کہا کہ اس نے تو مسہ کی نشاندہی کی ہے باقی کام اس کا نہیں ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ عوام سے اپیل کر سکتا ہے کہ وہ اچھے برے کی پہچان کریں،ڈبہ لیڈر انکی خدمت کیلئے نہیںہوتے ،یہ اپنے وجود کو تخلیق کرنیوالے کے وفا دار ہوتے ہیں ،ان سے بچیں،اور ملک کی حقیقی سیاسی لیڈر شپ کو مقام اور عزت دیں ، ان کا احتساب کرنا بھی آسان ہوتا ہے ،یہ دستیاب ہوتے ہیں اور انکی سوچ مستقبل پر نظر رکھنے والی ہوتی ہے ،یہ دبائو کو سہہ سکتے ہیں،یہی ملک کو دلدل سے نکال سکتے ہیں،ان کی مدد کریں ۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں