کیا موجودہ نظام قابلِ عمل و استفادہ ہے؟

پروفیسر محمد مظہر عالم 
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا قیام بلاشبہ عوامی امنگوں، یعنی ہندوستان میں انگریز سامراج اور نظر آتی ہندوئوں کی ابدی غلامی سے نجات کا بہت بڑا سیاسی معجزہ تھا اور وطنِ عزیز کا قیام قراردادِ لاہور، پاکستان، محض سات سال کی جہدِ مسلسل اور قائد اعظم کی قیادت کا اعجاز تھا اور سبسے بڑھ کر اپنے قائداعظم کی مخلصانہ قیادت کے زیر سایہ عوام نے بذریعہ انتخابات اپنے خوابِ آزادی کو عملاً شرمندۂ تعبیر کیا لیکن 11 ستمبر 1948ء کو پاکستانی قوم اپنے محبوب و عظیم قائد کے سایۂ شفقت اور مہر و وفا سے سیاسی طور پر یتیم ہو گئی اور یتیم کی زندگی جن آزمائشی لمحات سے گزرتی ہے وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ عوام اپنے اس اختیارات سے دن بدن محروم ہوتے گئے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ 
ہمارے ملک میں قائم پارلیمانی نظام آغاز سے لیکر آج تک مستحکم کیوں نہ ہو سکا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مغربی نظام سیاست و حکومت ہمارے ملک کے لیے کس حد تک قابلِ عمل ہے اور واقعتاً عوام اس قابل ہیں یا انہیں اس قابل نہیں بنایا گیا کہ وہ اپنی رائے کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکیں۔ ارسطو کا قول ہے کہ جس معاشرہ میں ناخواندگی ہو گی وہاں جمہوریت بدترین ڈکٹیٹر شپ ثابت ہوتی ہے۔ وطنِ پاک میں شرح خواندگی کے بارے میں کوئی شناسا نہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک میں موجود نظام تعلیم نے ووٹرز کی تعداد میںاضافہ تو کیا مگر معیارِ تعلیم نے ہماری نسلوں کو سوائے ذہنی غلامی کے کچھ بھی نہیں عطا کیا۔ خاص طور پر طبقاتی تعلیم نے ہمارے ہال مختلف طبقات اس انداز سے پیدا کئے کہ آقائوں اور غلاموں کے درمیان تفاوت بڑھتا گیا۔ ایک طرف اگر ایچی سونین تو دوسری طرف ٹاٹ کلچر بڑھتا گیا۔ یہی فرق ہماری سیاسی اشرافیہ اور عوام الناس سے فاصلوں کا باعث بنا۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور حکومت میں آ کر عوامی مفادات کو پس پشت ڈالنے کا ایسا رویہ اپنایا گیا کہ عوام صرف سیاستدانوں کے لیے حصول اقتدار کا باعث ہی بنے۔ عام آدمی ووٹر تو بنا لیکن حکمرانوں نے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے انہیں سپورٹ نہیں کیا۔ عوام گزشتہ کم و بیش پچاس سالوں میں ایسے ہی صنعتی، تجارتی اور سرمایہ کار سیاستدانوں کے علاوہ جاگیردار سیاستدانوں کے کے پرفریب نعروں میں اس حد تک فریب اور ستم زدہ ہو گئے ہیں کہ انہیں یہ سجھائی ہی نہیں دے رہا کہ ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ اگر حقیقی طور پر جائزہ لیا جائے اور عوام سے براہِ راست آزادانہ طور پر اس بارے سوال کیا جائے کہ آیا انہیں ایسے فرسودہ نظام کی ضرورت ہے کہ جس سے ان کے معاشی و معاشرتی مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، یعنی آئین کے تحت ریفرنڈم کروایا جائے۔ شرط یہ ہے کہ ریفرنڈم سے پہلے انہیں ان معروضی حقائق سے آگاہ ضرور کیا جائے۔ چونکہ موجودہ سیاسی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔ دور دور تک ان الجھنوں کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ 
حکمران اشرافیہ دن بدن امیر اور غریب روزبروز غریب ہو رہا ہے۔ 2018ء میں منعقدہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں عمران خان کا دعوئوں بھرا اقتدار، قرضوں کے حصول سے لیکر عوامی امنگوں کے مطابق دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ جبکہ جمہوری تقاضوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر اور سیاست و مملکت سرانجام دینے کا رواج بھی خان صاحب نے کچھ اس انداز سے متعارف کروایا ہے کہ جس کاانجام خود خان صاحب کو معلوم نہیں لہٰذا کیوں نہ مقتدر حلقے اس بات پر غور کریں کہ آیا ہمارا ملک ایسے نظام کا متحمل ہو سکتا ہے جس کے اخراجات ہی اس قدر زیادہ ہیں کہ قرضے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ اداراتی کرپشن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پارلیمنٹ کا کام صرف اور صرف قانون سازی ہے، لیکن اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر کروڑوں روپے دینار اور پھر ترقیاتی کاموں میں کمشن سسٹم، سب تک یہ فریب بھرا نظام چلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی معیشت درست کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال تک ماہرینِ معیشت کی حکومت بنائی جائے جو ملک کو قرضوں سے نجات کے ساتھساتھ اُن بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی ملکی دولت بذریعہ تلوار واپس لی جائے۔ چند دن پہلے محترم سعید آسی صاحب نے بھی قرض اتارنے اور عوام کے تعاون کے حوالہ سے ایک رائے دی تھی اس پر ہی عمل کر لیا جائے تو شاید عوام کی روزمرہ زندگی کے مسائل کا خاتمہ ہو سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا احتساب بھی بہت ضروری ہے۔ 1953ء تک وطن عزیز مقروض نہیں تھا، یہ حقیقت پیشِ نظر رہے۔ 

ای پیپر دی نیشن