شہباز شریف1990ء کی دہائی سے اکثر میرے پھکڑپن کا نشانہ رہے ہیں۔ جولائی 2017ء کے مہینے میں لیکن تقریباََ ہر روز میری تنقید کی زد میں رہے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کے بڑے بھائی نے اس مہینے بیگم کلثوم نواز شریف صاحبہ کو بستر مرگ کے سپرد کرتے ہوئے اپنی دختر کے ہمراہ پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ان دونوں کو احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کی ایماء پر بنائے مقدمات میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت سزائیں سنارکھی تھیں۔یہ بات طے تھی کہ وطن لوٹتے ہی انہیں ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا جائے گا۔مجھے تاہم گماں تھا کہ شہاز شریف اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نما?ں اور کارکنوں کی بدولت لاہور ایئرپورٹ کے گرد نوازشریف کے استقبال کے لئے عوام کا جم غفیر جمع کرلیں گے جو کئی حوالوں سے ’’تاریخی‘‘ بھی شمار ہوسکتا ہے۔یہ سوچتے ہوئے اگرچہ مجھے ایک لمحے کو بھی یہ خوش گمانی لاحق نہ ہوئی کہ لاہور ایئرپورٹ کے گردم عوام کا ’’عظیم الشان اجتماع‘‘ دیکھ کر ریاستِ پاکستان گھبرا جائے گی۔ نواز شریف کو فوراََ گرفتار کرنے کے بجائے انہیں ’’عوام کے سمندر‘‘ کو جلوس کی صورت دے کر جاتی امراء جانے دیا جائے گا۔ان کی ’’گرفتاری‘‘ مگر ان کے استقبال کے لئے آئے ہجوم کو بھڑکاسکتی تھی اور لاہور میں کئی گھنٹوں تک ’’پلس مقابلے‘‘ کا ماحول بن سکتا تھا۔
شہباز شریف لیکن مجھے متوقع ماحول بنانے کو آمادہ نظر نہیں آئے۔ ’’احتجاجی تحاریک‘‘ سے وہ کبھی وابستہ نہیں رہے۔ ’’اچھے دنوں‘‘ میں ڈائس پر کھڑے ہوکر فرطِ جذبات سے مغلوب ہوئے حبیب جالب کے ’’ایسے دستور کو …‘‘ پڑھتے ہوئے مائیک وغیرہ زمین پر گرادیتے ہیں۔ان میں موجود ’’انقلابی‘‘ اس کے بعد تھک جاتا ہے۔تھوڑے مسخرے پن کا منظربھی بن جاتا ہے۔
بہرحال جس روز نواز شریف نے محترمہ مریم نواز صاحبہ سمیت لاہور ایئرپورٹ پہنچنا تھا تو شہباز صاحب نے لاہور کی مسلم مسجد سے ایک ’’عظیم الشان جلوس‘‘ کے ہمراہ ایئرپورٹ پہنچنے کا فیصلہ کیا۔لاہور کی احتجاجی تحاریک کے مزاج سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے میں بضد رہا کہ نواز شریف کے ’’استقبال‘‘ کے لئے متوقع جلوس کے آغاز کے لئے مسلم مسجد کا انتخاب واضح عندیہ دے رہا ہے کہ شہباز شریف سرکار کو للکارنے والا ماحول بنانا نہیں چاہ رہے۔ وہ اس امر کو سنجیدہ ہوئے تو اپنے حامیوں کو کثیر تعداد میں لا ہور کے ریگل چوک بلواتے اور وہاں سے ایئرپورٹ کی جانب بڑھتے ہوئے مختلف مقامات پر ’’پلس مقابلے‘‘ کی گنجائش نکال سکتے تھے۔ میری توقع کے عین مطابق لاہور کی مسلم مسجد سے ہارے ہوئے دل کے ساتھ چلاجلوس نواز شریف کی لاہور آمد کے روز ’’احتجاجی ماحول‘‘ بنانہیں پایا۔ نواز شریف کے حامیوں کو بلکہ دل شکنی کی حد تک پھسپھسا نظر ا?یا۔یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ میں اس کالم اور ان دنوں آٹھ بجے شام ایک ٹی وی پر ہوئے شو کے دوران شہباز شریف کی ’’سمجھوتہ پسند‘‘ طبیعت کو مذکورہ مایوسی کا واحد سبب ٹھہراتا رہا۔
نواز شریف لاہور ایئرپورٹ اترتے ہی اپنی دختر سمیت گرفتار ہوگئے۔ بعدازاں چند ماہ جیل میں نظربند بھی رہے۔دریں اثناء جولائی 2018ء میں ہوئے انتخابات کی بدولت تحریک انصاف کی جیت کا اعلان بھی ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں عمران حکومت قائم ہوئی تو مجھے ٹی وی سکرینوں کے لئے ممنوع ٹھہرادیا گیا۔ میں کونے میں بیٹھ کر روزانہ یہ کالم لکھتا رہا۔گوشہ نشینی کے ان ایام میں اگرچہ چند مہربان سیاسی دوست اسلام آباد تشریف لاتے تو میرے ساتھ کچھ لمحے گزارتے ہوئے حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے۔
2019ء کے وسط میں ایک شام ایسے ہی ایک مہربان میرے ہاں آئے۔ جو صاحب میرے ہاں تشریف لائے تھے وہ نواز شریف کے مستقل وفادار ہونے کے باوجود شہباز شریف کی ’’پھرتیوں‘‘ سے ہمیشہ ناخوش رہے۔ میں نے اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے نواز شریف کی آمد کے دن لاہور کے ’’ٹھس‘‘ ہوئے جلوس کا ذکر چھیڑدیا۔ میری توقع کے قطعاََ برعکس شہبازشریف کیخلاف غیبت گوئی میں حصہ ڈالنے کے بجائے ان صاحب نے میری ’’سادگی‘‘ پر حیرت کا اظہار کیا۔انہیں گماں تھا کہ سیاسی اور انتخابی حرکیات کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے مجھے نواز شریف کی آمد کے روز ’’فلاپ شو‘‘ کے لئے ذہنی طورپر تیار ہونا چاہیے تھا۔
دیانت داری سے اس ضمن میں جب میں نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کرلیا تو مہربان مہمان نے تفصیل سے سمجھایا کہ نواز شریف کے جولائی 2018ء میں لاہور پہنچنے کے بعد اس شہر میں استقبال کے نام پر احتجاجی تحریک کاماحول بنانے کے لئے ملک بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو اپنے شہروں اور قصبات سے بڑے جلوسوں کے ساتھ لاہور پہنچنا لازمی تھا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ’’استقبالی جلوس‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے تو ان کے وسائل کا خاطر خواجہ حصہ انتخابی مہم کے بجائے اس مد میں خرچ ہوجاتا۔ اضافی اخراجات کے علاوہ اہم ترین خدشہ یہ بھی تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے مسلم لیگ (نون) کے نامزد کردہ امیدوار اگر لاہور پہنچ کر ’’پلس مقابلوں‘‘ میں مصروف ہوجاتے تو پولنگ کے دن یہ امیدوارہی نہیں بلکہ ان کے سرکردہ حامی بھی ’’حلقوں‘‘ میں موجود نہ ہوتے۔ان کی جیلوں میں موجودگی تحریک انصاف کے حامیوں کے لئے ’’واک اوور‘‘ کا ماحول بنادیتی۔ میرے دوست مصر رہے کہ شہباز صاحب نے مذکورہ حقائق کو ذہن میں ر کھتے ہوئے 2018ء کے انتخاب کے لئے مسلم لیگ (نون) کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو ’’کسی مشکل‘‘ میں نہیں ڈالا۔ ان کی توجہ فقط انتخابی مہم ہی پر مرکوزرہنے دی۔مسلم لیگ (نون) کے امیدواروں کو نواز شریف کی اپنی دختر سمیت گرفتاری کی بدولت ’’ہمدردی کا ووٹ‘‘ بھی مل گیا۔وہ قابل ستائش تعداد میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوگئے۔
آپ نے یہ کالم اگر یہاں تک پڑھ لیا ہے تو ذہن میں سوال اٹھا ہوگا کہ میں نے آج کا دن ہی ایک اہم سیاسی عمل کے حوالے سے اپنی کوتاہی فن کا اعتراف کرنے کے لئے کیوں چنا ہے؟ مجھے یہ واقعہ اس وجہ سے یاد آیا ہے کہ تحریک انصاف کے چند حامی پیر کی شام سے دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان نے اڈیالہ جیل سے مبینہ طورپر اپنے حامیوں کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ آئندہ اتوار کے روز گھروں سے باہر نکل کر ان کے ساتھ ہوئے سلوک کے خلاف احتجاج کریں۔لوگوں کو 10اپریل 2022ء کے احتجاج کی یاد دلادیں۔ عمران خان سے منسوب بیان کی یہ کالم لکھنے تک میں تصدیق یا تردید کے حصول میں ناکام رہا ہوں۔جولائی 2018ء کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگرچہ یہ التجا کروں گا کہ فی الوقت تحریک انصاف کو اپنی تمام تر توجہ اور توانائی اس امرپرمرکوز رکھنا چاہیے کہ 8فروری 2024ء کے روز اس کے حامی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے گھروں سے نکلیں اور اس جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچ جائیں۔