انتخابات 2024ء پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جن کے انعقاد کے بارے میں ابھی تک شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا ہے۔- سینٹ میں انتخابات کے التواء کی قراردادوں نے عوام اور انتخابی امیدواروں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کیئے جبکہ امیدوار خود بھی انتخابات کے سلسلے میں شش و پنج کا شکار ہیں اور انتخابی اخراجات کے بارے میں بڑے محتاط نظر آتے ہیں حالانکہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 8 فروری کو انتخابات کی یقین دہانی کرا رکھی ہے- سڑکوں اور گلیوں میں بینرز اور پوسٹرز کی بہار اور عوام کی گرمجوشی نظر نہیں آتی جو انتخابات کی روایت رہی ہے- بلا شک سرد موسم نے بھی انتخابی گرما گرمی کو متاثر کیا ہے- پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف پر کریک ڈاؤن جاری ہے جس کی بناء پر عوام میں مایوسی اور بد دلی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں- صاف اور شفاف انتخابات کے امکانات نظر نہیں آرہے- سینئر صحافی پیشینگوئی کر رہے ہیں کہ انتخابات 2024ء میں ٹرن آؤٹ کی شرح بہت کم رہے گی- مرکزی سیاسی لیڈروں میں سے عمران خان پابند سلاسل ہیں اور اپنی جماعت کی انتخابی مہم کی سربراہی سے قاصر ہیں- میاں نواز شریف ابھی تک صرف حافظ آباد اور مانسہرہ کے جلسوں میں شریک ہوئے ہیں اور مختصر خطاب کیا ہے- شاید وہ بھی مقررہ تاریخ پر انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شش و پنج میں ہیں ورنہ وہ اب تک کئی جلسوں سے خطاب کر چکے ہوتے-
بلاول بھٹو زرداری سب سے زیادہ متحرک لیڈر ثابت ہوئے ہیں- ان کو پاکستان کے عوام سے مخاطب ہونے کا موقع مل رہا ہے- بلاول بھٹو نے لاہور کے انتخابی حلقے این اے 127 میں کامیاب جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے جذباتی اپیل کی ہے کہ وہ انکے ساتھ تعاون کریں تا کہ وہ نفرت اور انتقام کی سیاست کا خاتمہ کر سکیں - انہوں نے عوام سے معاشی انقلاب لانے اور غربت بے روزری اور مہنگائی کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے- بلاول بھٹو روایتی ناکام سیاست دانوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں- وہ عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ چوتھی بار دھوکہ کھانے کی بجائے ان کو ایک بار موقع دیں-اگر تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو انتخابات سے قبل پنجاب میں مسلم لیگ نون کو شکست دینے کے لیے تحریک انصاف اور پی پی پی کے درمیان کسی نہ کسی نوعیت کی مفاہمت کے امکانات موجود ہیں- پی پی پی کے چیئرمین گوہر خان، ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن پی پی پی اور تحریک انصاف کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور دونوں جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے-
اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے- مسلم لیگ نون کی قیادت میں ڈیڑھ سال چلنے والی اتحادی حکومت کے مقابلے میں معیشت کی صورتحال بہتر ہوئی ہے- اسٹیبلشمنٹ کبھی یہ گوارا نہیں کرے گی کہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت ایک بار پھر سیاسی مصلحتوں کی خاطر معیشت کو برباد کر دے- پاکستان کو مالی امداد دینے والے ملک ٹھوس یقین دہانیاں حاصل کر رہے ہیں کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا- ایوان اقتدار کے قریبی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2024ء کے انتخابات کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر دیے جائیں گے تاکہ معاشی استحکام کو مضبوط بنایا جا سکے اور عمران خان کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے- پاکستان کے بااثر کاروباری حلقے ایسی مضبوط حکومت کے خواہاں ہیں جو ریاستی اور حکومتی اداروں میں سٹرکچرل نوعیت کی تبدیلیاں کرنے کی اہل ہو- نگران حکومت نے ایف بی آر میں جوہری تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں عنقریب ایک آرڈی نینس جاری کیا جائے گا- اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان سرد مہری ختم ہونے کے اشارے بھی مل رہے ہیں- تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود اس کی عوامی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جا سکا-
باوثوق ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر پنجاب حکومت نے ایک جائزہ رپورٹ ریاستی اداروں کو ارسال کی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ 8 فروری کو پولنگ ڈے پر عوام کا سمندر گھروں سے باہر نکل سکتا ہے جس کو روکنے کے لیے پنجاب حکومت کے پاس انتظامی وسائل موجود نہیں ہیں- سیکورٹی خدشات کے پیش نظر اسلام آباد کی چار بڑی یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا ہے- اگر انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو عمران خان راضی ہو سکتے ہیں کیونکہ تاخیر سے زمینی حالات تحریک انصاف کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں- مسلم لیگ نون کو اتحادیوں کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی حکومتی کارکردگی کی وجہ سے فی الحال عوامی سیاسی میدان میں سخت مشکلات کا سامنا ہے- مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کے 266 حلقوں میں سے 212 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں- یہ بڑی سیاسی جماعت ابھی تک اپنا منشور بھی عوام کے سامنے رکھنے سے قاصر ہے-
پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے حالات سازگار ہیں جو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی کشیدگی سے انتخابی فائدہ اٹھا سکتی ہے-1970ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے ایک سال انتخابی مہم چلائی تھی- ان انتخابات میں عوام کا جوش و خروش بے مثال تھا - افسوس ان انتخابات کے بعد عوام کے فیصلے کو مسترد کر دیا گیا جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کے المیے کی صورت میں نکلا -