انتخابات کے دور میں کسی اور ایشو کو زیر بحث لانا رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف ہے لیکن کیا کیا جائے، لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی پیدا ہی نہیں ہو رہی ورنہ پہلے انتخابات کے دنوں میں لوگ تقریبات نہیں رکھتے تھے کہ انتخابات کی گہماگہمی میں وہ رائیگاں چلی جائیں گی زیر بحث نہیں آئیں گی۔ اب ایسی بیزاری ہے کہ لوگ کہتے ہیں، چھڈو جی کوئی ہور گل کرو۔ ایسے گئے گزرے الیکشن ہیں کہ انتخابی ماحول بن ہی نہیں پا رہا۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی بیوہ کی شادی ہو رہی ہو اور وہ بھی ایسی بیوہ جس کی زبردستی شادی کروائی جا رہی ہو۔ اللہ معاف کرے کوئی اجاڑ سی اجاڑ ہے، انجانا خوف اور مایوسی کا ماحول ہے۔ ایسے میں انتخابات پر کس حد تک بحث کی جا سکتی ہے لہذا ہم نے تقریبات کے رسیدی ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گذشتہ دنوں آلاامین اکیڈمی جو کہ مستحق ذہین بچوں کو مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرواتی ہے اور اب تک دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلباء اس پلیٹ فارم سے پڑھ کر آج بیوروکریسی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اس کے روح رواں پیر ضیاالحق نقشبندی اور معروف سماجی شخصیت نواز کھرل نے مل کر عہد ساز شخصیت عبدالقادر حسن کی یاد میں مقامی ہوٹل میں تقریب منعقد کی۔ یہ تقریب صبح سے لے کر شام تک جاری رہی آخر کار ہوٹل انتظامیہ کو لائیٹیں آف کرکے اگلے فنگشن کی تیاری کے لیے ہال خالی کروانا پڑا۔ صحافیوں کا اس سے بڑا میلہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے میڈیا انڈسٹری کے تمام بڑے نام ایک چھت تلے جمع تھیجن کے نام اس لیے نہیں لیے جا رہے کہ اگر نام لیے تو پورا کالم ناموں پر ہی مشتمل ہو گا۔ عبدالقادر حسن کے بیٹے اطہر حسن نے بھی میزبانی کا حق خوب ادا کیا۔ وہ اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ کی اعلی مثال ہیں۔ انھوں نے ہر مہمان کو عزت واخترام دیا کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ تقریب میں عبدالقادر حسن کیکالموں پر بات کی گئی آج کی صحافت صحافیوں کو درپیش مسائل اور مشکل سے مشکل دور میں بات کہنے کے سلیقے پر بھی بات ہوئی۔
پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے معاملات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ آج کے دور میں میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق صحافتی اصولوں پر بھی بات کی گئی۔ عبدالقادر حسن جدید اسلوب کے کالم نگار تھے وہ سیاسی کالم نگاری کے موجد تھے انھوں نے ہر دور میں حق بات کی اور سچ بات کی۔ وہ حقیقت پسند صحافی تھے۔ ایک اور اہم تقریب کاسموپولٹین کلب باغ جناح میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔ یہ تقریب اس حوالے سے منفرد تھی کہ اس میں پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت کی جانب سے دانشوروں صحافیوں کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ مرکزی مسلم لیگ کے منشور پر اپنی رائے دیں۔ اس طرح پاکستان کے مسائل اور اس کے حل پر یہ تقریب ایک مباحثہ کی شکل اختیار کر گئی جس میں پاکستان کے معروضی حالات سیاسی جماعتوں کے ماحول عام آدمی کے مسائل اس کے حل اور انتخابات پر گفتگو ہوئی۔ بلاشبہ مرکزی مسلم لیگ ایک نئی سیاسی جماعت ہے جس پر کئی قسم کے تحفظات بھی ہیں جس کے پس منظر میں ایک ملی ٹینٹ گروپ اور بین الاقوامی دباؤ کا بھی تاثر ہے لیکن پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے دامن میں پورے پاکستان میں خدمات کا کریڈٹ بھی ہے۔ مصیبت ، آفات کے مواقع پر اس سے وابستہ لوگوں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی انسانی خدمت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں اس گروپ نے خدمات کے کاموں کو سیاست کے پلیٹ فارم سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی قیادت نے ملک کے وسیع تر مفاد میں کئی قسم کی پابندیوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ وہ گناہ بھی اپنے سر لے لیے جو کبھی کیے بھی نہ تھے۔ سیاست ہر شہری کا بنیادی حق ہے الیکشن لڑنا بھی بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔ مرکزی مسلم لیگ نے بھی عوام کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور ایک مختصر مگر جامع منشور عوام کے سامنے رکھا جس کا بنیادی سلوگن، نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے،مایوسی کے اندھیروں سے روشنی کا سفر،ہماری سیاست خدمت انسانیت، مرکزی مسلم لیگ نے غلطیوں سے بچ کر عوامی تربیت کے ساتھ پاکستان کو مدینے کا معاشرہ بنانے کا اعادہ کیا ہے۔غریب امیر کے فرق کو کم کرکے عدل پر مبنی اسلامی معیشت قائم کی جائے گی۔ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے معاشی نظام ترتیب دیا جائے گا۔ قوموں سے ایسے معاہدے نہیں کیے جائیں گے جس سے غلامی کا تاثر ابھرے۔ بنکوں کو مکمل تجارتی ادارہ بنایا جائے گا۔ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا۔درآمدات پر پابندی لگا کر برآمدات کو بڑھایا جائے گا۔ناجائز ٹیکس ختم کیے جائیں گے۔زراعت کی ترقی پر توجہ دی جائے گی۔یکساں نظام تعلیم اور ایک ہی طرز کے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے تاکہ امیر اور غریب ایک جیسی تعلیم حاصل کریں۔
آخر میں متحدہ عرب امارات سے ہمارے ایک دوست نے فون کرکے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت ویزہ کے حوالے سے پاکستانیوں پر سختی کر رہی ہے۔ یو اے ای میں 14 لاکھ پاکستانی ہیں اگر انھیں پروفیشن تبدیل کرنا پڑے یا ملازمت تبدیل کرنا مقصود ہو تو اس کی اجازت نہیں ملتی حالانکہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستانیوں کے پاسپورٹ پر 6ماہ کی انٹری مل جاتی تھی۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے بات کرنی چاہیے اور بھارت کی طرح اپنے شہریوں کے لیے سہولتیں حاصل کرنی چاہیئں تاکہ پاکستانیوں کو بھی برابر کے مواقع مل سکیں۔