فرد ِ واحد

قارئین آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ پچھلے چند ماہ سے میرے بیشتر کالموں کا محور اخلاقی اور سماجی ایشوز ہی رہے ہیں اور اس خاکسار نے شائد ہی ملکی سیاست کے حوالے سے کوئی قلم آرائی کی ہو۔ دوست لوگ سوشل میڈیا فورمز کے ذریعے اکثر یہ سوال کرتے ملتے ہیں کہ انے والے دنوں میں آپکی تیسری آنکھ ملکی حالات کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے اور آپ اس پر کچھ لکھیں۔

اس خاکسار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اگر وہ کسی حوالے سے کوئی خبر دے تو سب سے پہلے وہ خود یہ یقین کر لے کہ خبر دینے والے ذرائع کتنے معتبر ہیں اور کہیں بریک ہونے والی خبر انکی ذاتی خواہش کی عکاس تو نہیں، اسی طرح راقم جب کوئی تجزیہ پیش کرتا ہے وہ اسکے لئے جس پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے وہ ایک تو زمینی حقائق ہوتے ہیں اور دوسرا وہ تاریخی حوالاجات کا سہارا لیتا ہے لہٰذا اس کالم میں بھی مختلف ادوار کے اس وقت کے زمینی حقائق پر انحصار کیا گیا ہے۔ سب سے پہلی حقیقت کہ پاکستان کے حالات پر ہمیشہ تین قوتیں قادر رہی ہیں جس میں پہلا نمبر اللہ دوسرا نمبر امریکہ اور تیسرا نمبر انکا ہے جنکا نام لینے پر شائد پیمرا یا پولیس حرکت میں آ جائے۔ اللہ کے حوالے سے اتنا کہونگا کہ یہ اسی ذات کا کرم ہے جسکی بدولت آج تک یہ وطن سلامت ہے باقی ہم نے تو اپنے طور اسکی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رہی بات باقی دو کی تو پاکستان کے قیام سے لیکر ستر کی دہائی تک تو اسکی اپنی ایک الگ داستان ہے لیکن راقم اپنی بات کا آغاز ستر کی دہائی سے کرنا چاہتا ہے اور آپ سب کی توجہ ہنری کسینجر کے اس انٹرویو کی طرف لے جانا چاہتا ہے جس میں وہ اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر سوچ و بچار دراصل ایوب دور سے ہی شروع ہو گیا تھا اور جنرل یحییٰ کے ساتھ 1972ء میں اس ایجنڈہ کی تکمیل پر اتفاق بھی ہو چکا تھا لیکن مکتی باہنی کی کاروائیوں کی وجہ سے بھارت کو قبل از وقت جنگ میں کودنا پڑا اور یوں اس منصوبے کا دی اینڈ 1971ء میں ہی ہو گیا۔ فکری اساس یہاں پر کچھ اسطرح گویا ہوتی ہے کہ کیا 1958ء سے لیکر 1971ء تک اگر اس ملک میں فرد واحد کی حکومتیں نہ ہوتیں تو کیا ملک کو دولخت کرنے کا اتنا بڑا فیصلہ عوامی ووٹوں سے متخب حکومتیں کر سکتی تھیں۔
اب بات چل نکلی ہے تو یہ یہاں پر رْکتی دکھائی نہیں دیتی یہ خاکسار اب آپکی توجہ 1977ء کی طرف لے جانا چاہتا ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی اچھی بھلی حکومت چل رہی تھی جب ایک انجینئرڈ پلان کے تحت یکایک ملک کو ایک بحران کی طرف دھکیل دیا گیا اور یہ کس کی ایماء پر کیا گیا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ دوسرے عوامل جس میں اسلامی بلاک اور ایٹم بم کاْذکر کیا جاتا ہے اپنی جگہ معتبر ہونگے لیکن کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اس خطہ کے جو اس وقت جیو پولیٹیکل حالات بن رہے تھے جس میں گو کہ ایرانی انقلاب سر فہرست تھا لیکن جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی وہ افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت تھی جسکا امریکہ کو ایک دو سال پہلے ہی ادراک ہو چکا تھا اور اس نے سویت یونین کو اس میں دانستہ طور پر ملوث کیا تھا تاکہ وہ سویت یونین کو یہاں پر پاکستان کے ذریعے پراکسی وار کا نشانہ بنا کر اسکی معیشیت کا جنازہ نکال سکے اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح جنرل ضیاء فرد واحد کی حکومت امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلی۔ اسی دور میں ایک اور واقعہ کی طرف آپکی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں اور وہ ہیں سویت یونین کی افغانستان میں شکست کے بعد جنیوا مذاکرات جس میں جونیجو کی سیاسی حکومت کے وزیر مملکت زین نورانی نے صاحبزادہ یعقوب ( اسٹیبلشمنٹ کا بندہ) کے مکمل وزیر ہونے کے باوجود جونیجو کی ایماء پر جو کردار دکھایا وہ میری اس بات کو کتنی تقویت دیتا ہے کہ امریکن ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے سیاسی نہیں ہمیشہ فرد واحد کی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں اگلے اس مقام کی طرف جہاں امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان میں فرد واحد کی حکومت کی ضرورت پڑی اور وہ تھا 1999ء کیونکہ اب یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ نائن الیون کیوں ہوا اور اسکے پیچھے کیا عوامل اور مقاصد پوشیدہ تھے۔ اس دفعہ بھی امریکہ کو پتہ تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی حکومت ہو چاہے وہ بینظیر ہو یا نواز شریف وہ انکے ایجنڈہ پر اس طرح کام نہیں کرینگے جس طرح ایک فرد واحد کی حکومت کرتی ہے۔ چنانچہ باقاعدہ ایک پلان مرتب کیا گیا اور ایک دفعہ پھر ایک فرد واحد کو حکومت میں لایا گیا۔ اس فرد واحد نے جی حضوری میں ایک فون کال پر ڈھیر ہوتے بیک وقت اپنے تین کور کمانڈرز جنکی طرف سے اس معاملہ پر کچھ اختلافات یا خدشات سامنے ائے انکی فراغت جو کہ کسی طور کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کے علاوہ پاکستان کو آگ کی بھٹی میں دھکیلنے کے ساتھ اور کیا کچھ نہیں کیا جو آج بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب لکھا جاتا ہے۔ 
سیاسی حکومت کے فیصلوں کی ایک جھلک آپکو جونیجو حکومت میں زین نورانی والی بتائی دوسری جھلک آپکو 2015ء والی قومی اسمبلی کے اس اجلاس کی دکھانا چاہتا ہوں جس میں سعودی یمن تنازعہ میں پاک فوج کا کردار تھا۔ کالم کو سمیٹتے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لینے والوں کی توجہ افغانستان میں چین کے کردار اور وہاں کی معدنیات میں اسکی دلچسپی کے متعلق ہے۔ استعماری قوتیں کسی صورت چین کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیں گی انکو اس خطے میں ایک دفعہ پھر پراکسی وار کھیلنی ہے اس سباق اسی ہفتے بیٹھے بٹھائے ایران کی طرف سے کاروائی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ بہادر ایک منصوبہ کے تحت آپکی قوم کو سیاسی محاذ پر اسطرح تقسیم کر چکا ہے کہ کسی صورت ایک پائیدار حکومت بنتی دکھائی نہیں دیتی نتیجہ فرد واحد کی حکومت ہی نظر آتی ہے جس سے اس سال پھر کوئی بڑا کام لیا جائے گا یہ بات راقم نہیں کہہ رہا یہ نتائج تاریخ سے اخذ کئے گئے ہیں۔
٭…٭…٭

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...