پاکستان اور ایران کے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور ایران کے وزرا ئیخارجہ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے بعد باہمی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے سفیر 26 جنوری 2024ء تک اپنے اپنے عہدوں پر واپس آجائیں گے۔ بیان کے مطابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر ایران کے وزیر خارجہ حسین عامر عبداللہیان 29 جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔
ایران کی طرف سے پاکستان میں موجود ایسے لوگوں پر سرجیکل سٹرائیک کی گئی جو ایران کے بقول انکے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے جبکہ حقیقت اس کے قطعی برعکس تھی۔ اس حملے میں دو بچیاں جاں بحق ہو گئیں۔ ایران کی طرف سے حملے کا جو بھی جواز نکالا گیا مگر یہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے سراسر منافی تھا۔ فوری طور پر پاکستان کی طرف سے تمام تر تعلقات منقطع کر لیے گئے اور ایران میں اس مقام پر حملہ کیا گیا جہاں کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گرد موجود تھے۔ یہ عناصر پاکستان میں دہشت گردی کے کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس حملے میں سات دہشگردمارے گئے۔ایران کی طرف سے جو جارحیت کی گئی تھی، ایران نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے دوطرفہ مسائل کے باہمی بات چیت کے ذریعے حل پر اتفاق کیا جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی۔ایسی محاذ آرائی اور کشیدگی عموماً جنگ کی طرف حالات کو لے جاتی ہے تا ہم دونوں طرف سے مثبت سوچ کا اظہار حالات کو معمول کی طرف لانے میں معاون ثابت ہوا۔جتنی جلدی پاکستان اور ایران کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے اتنی ہی جلدی نہ صرف بحال ہو گئے بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں جس سے ان قوتوں کو یقینی طور پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جو خطے میں حالات کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔ ایران کی طرف سے معذرت کی گئی جسے پاکستان نے وسیع القلبی سے قبول بھی کر لیا۔دونوں ممالک کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔دہشت گرد اول و آخر دہشت گرد ہوتا ہے وہ جس بھی ملک میں موجود ہو۔ ایران اور پاکستان میں موجود اور ایک دوسرے کو مطلوب دہشت گردوں کے خلاف اگر دو طرفہ کارروائی ہو تو دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہونے کے امکانات کم سے کم ہو سکتے ہیں۔ امید یہی کی جانی چاہیے کہ آئندہ تعلقات اس سطح پر کشیدہ ہونے کی نوبت نہیں آئے گی۔
پاک چین دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
عوامی جمہوریہ چین کے نائب وزیر خارجہ مسٹر سن ویڈونگ نے اسلام آباد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور جی ایچ کیو راولپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ دفاعی تعاون کو مزید بڑھانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دفاع اور جدیدٹیکنالوجیز سمیت پاکستان اور چین کے مابین تعاون مثالی ہے۔دونوں ممالک کو ایک جیسے خصوصی طور پر دفاع کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے۔دونوں ممالک کے بھارت کے حوالے سے جغرافیائی تنازعات بھی کم و بیش ایک جیسے ہیں۔دفاع کے حوالے سے پاکستان اور چین ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں۔علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کی دنیا معترف رہی ہے جس میں چین سر فہرست ہے۔چینی نائب وزیر خارجہ نے آرمی چیف کیساتھ ملاقات میں اس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین ہر موسم کے سٹریٹیجک شراکت دار ہیں۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششیں قابلِ قدر ہیں۔پاکستان اور چین کے بہت سے مفادات سانجھے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خلوص کے ساتھ کوشاں رہے ہیں۔دشمن قوتوں کی طرف سے دونوں دوست ممالک کیتعلقات میں رخنہ ڈالنے کی ہر ممکن سازش کی گئی لیکن یہ سازشیں پاکستان اور چین کے ایک دوسرے پر اٹوٹ اعتماد کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں۔خصوصی طور پہ بھارت کی طرف سے سی پیک کو ناکامی سے دو چار کرنے کی ہر ممکن سازش رچائی گئی۔ اس حوالے سے اس نے دیگر کئی ممالک کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔چین کے پاکستان میں موجود مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے کئی باردہشت گردی کرائی گئی۔اس کا مطمح نظر سی پیک منصوبے کو ثبوتاژ کرنا تھا جو ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے پاکستان کی لائف لائن بن چکا ہے۔چین کے تعاون سے پاکستان میں جدید لڑاکا طیاروں کی تیاری بھی جاری ہے جس کے باعث پاکستان کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ دشمن قوتوں کے لئے یہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ لہٰذا