پی ٹی آئی کے امیدواروں نے ملنے والے انتخابی نشانات پر دلچسپ نغمے بنا لیے۔
ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ الیکشن کمشن نے اپنے سارے انتخابی نشان امیدواروں میں بانٹے ہوں۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدوار بلے سے محروم ہوئے تو انہیں من پسند نہ سہی مگر الیکشن کمشن کی طرف سے مختلف نشانات الاٹ ہوئے۔ کسی کو مور ملا، کسی کو استری کسی کو بینگن کسی کو گھڑی کسی کو بلب۔ الغرض
نصیب میں جس کے جو لکھا تھا
وہ تیری محفل میں کام آیا
کسی کے حصے میں پیاس آئی
کسی کے حصے میں جام آیا
اب یہ الگ الگ نشان والے امیدوار اپنے اپنے حلقے میں اپنے ووٹروں کو اس نشان سے روشناس کرانے کے لیے سرگرم ہیں یوں الیکشن مہم اب ووٹ مانگنے کے ساتھ میرا نشان کیا ہے یاد کروانے کی مہم بن چکی ہے۔
یہ بات بہرحال سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے سوشل میڈیا پر نمبر ون ہیں وہ ہوائی کو بھی سوشل میڈیا پر گرما گرم خبر بنا کر یوں پیش کرتے ہیں کہ ان کے حامی آنکھیں بند کئے اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اب الیکشن نشانات کے حوالے سے تقریباً تمام پی ٹی آئی امیدواروں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ترانے کہہ لیں یا نغمے تیار کروا کر گلی گلی بجانے کے علاوہ سوشل میڈیا پر وائرل کر دئیے ہیں جس سے فائدہ بھی وہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں میں یہ نشانات والی اشیاء مثلاً گوبھی کا پھول، بینگن ، کدو اگر مفت تقسیم کرنے کا عمل بھی شروع ہو جائے تو یقین کریں ووٹ ڈالتے ہوئے لوگ خودبخود اسی نشان پر مہر لگائیں گے جو وہ اتنے دن کھاتے آئے ہیں۔ شکر ہے امریکہ کی طرح کھوتا اور ہاتھی ہمارے ہاں رائج نہیں ورنہ شیر کی طرح گلی گلی گھوڑا کھوتا تو لایا جا سکتا تھا مگر ہاتھی تو کہیں کہیں دستیاب ہو سکتا تھا۔
٭٭٭٭٭
سندھ کے بعد پنجاب میں بھی بلاول کے ساتھ آصفہ کی انٹری۔
سندھ کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کے جلسوں میں آصفہ زرداری کی شرکت کا کیا اثر ہوتا ہے وہ بھی جلد سامنے آئے گا۔گیٹ اپ کے لحاظ سے آصفہ بی بی بالکل بے نظیر بھٹوکی کاپی معلوم ہوتی ہیں۔ انداز بھی وہی ہے اور خطاب بھی ویسے ہی کرتی ہیں۔ شاید سندھ میں بھی بلاول کی ماٹھی کارکردگی کی وجہ سے آصف زرداری نے آصفہ کو میدان میں اتارا ہے۔ خبریں تو بہت پہلے سے گردش کر رہی تھیں کہ آصف زرداری کو بھی بلاول سے زیادہ آصفہ میں سیاسی صلاحیتیں نظر آتی ہیں مگر لگتا ہے بلاول کسی کی شراکت پر تیار نہیں تھے۔ اب حالات کچھ اور ہیں بھٹو اور بے نظیر سے لوگوں کی محبت اپنی جگہ مگر وہ اس محبت میں آصف یا بلاول کو ابھی تک شریک کرنے کو تیار نہیں۔
بھٹو اور بے نظیر تاریخ کا ناقابل فراموش کردار بن چکے ہیں ان پر کرپشن اور لوٹ مار کے حوالے سے کوئی الزام نہیں۔ ان کی حب الوطنی اور عوام سے محبت بھی لوگ آج تک یاد کرتے ہیں مگر ان کے بعد پیپلز پارٹی میں زرداروں کا ایسا راج ہوا کہ وہ عوامی رنگ کھو بیٹھی۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ آج بھی۔
مانگ رہا ہے ہر انسان
روٹی کپڑا اور مکان
بلکہ پہلے سے بہت زیادہ ان تینوں کی ضرورت ہمارے عوام کو ہے۔ کیونکہ ان سے روٹی ، کپڑا اور مکان کا خواب تک حکمران چھین کر لے گئے ہیں۔ مگر کوئی جماعت یہ سب مہیا کرنے کی بات تک نہیں کر رہی۔
٭٭٭٭٭
جنوری کے آخری ہفتے میں بارش کی پیشنگوئی
ویسے تو ہمیں محکمہ موسمیات کی کسی پیشنگوئی پر اعتبار نہیں کیونکہ جب وہ کہتے ہیں بارش ہو گی تو موسم خشک رہتا ہے جب کہتے ہیں موسم خشک رہے گا تو بارش برستی ہے۔ خدا جانے موسم کو اس محکمے سے چڑ ہے یا وہ جان بوجھ کر اس محکمے کو شرمندہ کرتا ہے۔ مگر اس بار کی بات ہی اور ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دعا کرتے ہیں کہ خدایا اس بار جنوری کے آخری ہفتے میں یعنی 25 جنوری کے بعد بارش ہو ہی جائے، پورے ملک میں خشک سردیاں گر رہی ہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں نہ پہاڑوں پر برف پڑ رہی ہے نہ بارش ہو رہی ہے۔ ہر طرف خشکی کا راج ہے۔ گلگت ، بلتستان والے کہہ رہے ہیں کہ وہ پہلی مرتبہ سردیوں میں فصلوں کو پانی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف جہلم میں بھی پانی کم آ رہا ہے کشمیر میں بھی دریائے جہلم سوکھ کر نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
لوگ صدقہ خیرات نذر نیاز دے رہے ہیں نماز استسقا ادا کر رہے ہیں تاکہ رحمت الٰہی جوش میں آئے پاکستان میں بھی پھلوں کے باغات اور سرما کی فصلیں پانی کی کمی کا شکار ہیں اس کا لامحالہ اثر پیداوار پر پڑے گا۔ اب خدا کرے بارش اور برف کا سلسلہ شروع ہو۔ لگتا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب سردیاں جنوری میں بارش اور برف فروری میں پڑتی ہے۔ ہمیں بھی قدرت کے اس ٹائم ٹیبل کے مطابق اب اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ آنے والے سالوں میں کسی بڑی پریشانی سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ موسموں میں تبدیلی اس طرف اک اشارہ ہے جو ہم جتنا جلدی سمجھ لیں بہتر ہے…
شعیب ملک کی ثاینہ مرزا سے علیحدگی اور اداکارہ ثنا جاوید سے شادی۔
فلمی یعنی شوبز کے ستارے ہوں یا کھیلوں کی دنیا کے ستارے یا پھر سیاستدان۔ بے شک ان کی اپنی نجی زندگی بھی عوامی ہونے کی وجہ سے نجی نہیں سمجھی جاتی اور اسے عوام اپنی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر تبصرے کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ’’پاپا رازی‘‘ ایسے ہی فوٹو گرافرز کے لیے یا چھپ کر ایسے لوگوں کی نجی زندگی کے خفیہ پہلو بے نقاب کرنے والوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کی علیحدگی ویسے ہی ہاٹ ایشو بنی ہے جیسے ان کی شادی بنی تھی۔ دونوں دنیائے کھیل کے نامور ستارے تھے۔ اب کھٹ پٹ تو کافی دنوں سے جاری تھی مگر باقاعدہ علیحدگی کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ دونوں کا ایک بیٹا بھی ہے۔ اب اچانک شعیب ملک کی ایک شوبز اداکارہ ثناء سے شادی کے بعد ثانیہ سے علیحدگی کا اعلان ہوا تو لوگوں کو افسوس بھی بہت ہوا۔ اسی طرح جس طرح رینارائے جیسی بڑی بھارتی اداکارہ اور محسن خان جیسے بڑے کرکٹر کی شادی کے بعد علیحدگی پر ہوا تھا۔ شعیب ملک کے گھروالوں نے اس موقع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا نہ ہی ثانیہ مرزا کی طرف سے کوئی منفی بات سامنے آئی۔ یہ اچھے لوگوں کی نشانی ہے۔ علیحدگی کے بعد دعا انہوں نے ضرور دی۔ ورنہ لوگ تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نجانے کیا کیا کہتے ہیں۔ کہنے والے تو اب بھی کہتے ہیں کہ یہ شعیب کی دوسری نہیں تیسری شادی ہے۔ جتنا منہ اتنی باتیں، اداکارہ کی بھی یہ دوسری شادی ہے اس سے پہلے ان کی شادی نامور گلوکار عمیر جسوال سے ہوئی تھی جوڑی دونوں کی بڑی فٹ لگتی تھی مگر علیحدگی ہو گئی۔ اب خدا کرے شعیب اور ثناء کی جوڑی سلامت رہے ورنہ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی علیحدگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ زیادہ تر محبت کی شادیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں بچے تباہ ہو جاتے ہیں نجانے کیوں یہ پریمی جوڑے ان کے بارے میں نہیں سوچتے۔
٭٭٭٭٭