ایران نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کر کے غلطی کی اور پاکستان نے اس کا بھرپور جواب بھی دیا، پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب کے بعد اب کچھ دونوں ممالک کے مابین حالات کشیدہ ہوئے، دنیا نے ممکنہ طور پر خراب صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس معاملے پر ردعمل بھی دیا، پاکستان کے انتہائی قدم کو دیکھتے ہوئے ایران نے بیک فٹ پر گیا اور اب حالات معمول کی طرف آ رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدہ صورتحال میں بہتری کے بعد دونوں ممالک کے سفیروں کو چھبیس جنوری سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان انتیس جنوری کو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران میں تعلقات معمول پر آنے اور کشیدگی میں کمی کو دیکھتے ہوئے پاکستانی ایئر لائنز نے جزوی طور پر ایران کی فضائی حدود کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی پروازوں نے ماضی کی طرح ایران کی فضائی حدود استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ پہلے پی آئی اے کی ٹورنٹو سے کراچی آنے والی پرواز نے تہران سے ہوتے ہوئے دو گھنٹے تک 37000 فٹ کی بلندی سے ایران کی فضائی حدود میں سفر کیا، اسلام آباد سے دمام کی پرواز بھی ایران کی فضائی حدود سے گذری، جب کہ دبئی سے اسلام آباد کی پرواز پی کے 112 نے بھی ایران کا فضائی راستہ استعمال کیا۔ سعودی عرب کے شہر الحوف سے اسلام آباد کی خصوصی پرواز بھی ایران سے ہوتے ہوئے منزل تک آئی، کراچی سے استنبول کی پرواز بھی تہران سے ہوتے ہوئے منزل پر پہنچی۔ ایران اور پاکستان کو جلد یہ سمجھنا چاہیے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے۔ پاکستان اور ایران کا دشمن ایک ہی ہے اور جو ان دونوں ممالک کا دشمن ہے درحقیقت وہ اسلام کا دشمن ہے، اسلام دشمن ہی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران آمنے سامنے آئیں، حالات خراب ہوں، دونوں کو لڑایا جائے اور دشمن اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ پاکستان نے خطے میں پائیدار امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، بہت نقصان برداشت کیا ہے، پاکستان ہمسایہ ممالک میں بھی امن کا خواہاں ہے، کیونکہ اگر کسی ہمسایہ ملک میں امن و امان کے حالات خراب ہوں گے تو اس کے اثرات اردگرد بھی ہوں گے، پاکستان پرامن افغانستان، پرامن ایران کا خواہش مند ہے، پاکستان تو بھارت سے بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو آزادی دے، مقبوضہ کشمیر میں دہائیوں سے جاری ظلم کا سلسلہ بند ہو، بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے تاکہ خطے میں امن قائم ہو، مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، مختلف ذرائع سے پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوششوں میں رہتا ہے۔ کلبھوشن جادیو پاکستان کے اندرونی مسائل میں مداخلت کی بہت بڑی مثال ہے اسی طرح بی ایل اے کے دہشت گرد اور افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی کارروائیوں کے پیچھے بھی بھارت ہی نظر آتا ہے۔ اگر ایران اپنی ذمہ داریاں نبھائے، افغان حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے تو خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے، ان ممالک میں تعمیر و ترقی کی رفتار بہتر ہو سکتی ہے، لوگوں کی زندگیاں آسان ہو سکتی ہیں۔ اگر کوئی یہاں بدامنی چاہتا ہے تو اس کا راستہ بھی ان ممالک کو متحد ہو کر ہی روکنا ہے۔ پاکستان نے ایران کے بلوچستان میں حملے کی جوابی کارروائی کر کے پاکستان دشمنوں کو یہ پیغام تو بہت واضح انداز میں پہنچا دیا ہے کہ کوئی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔
ویسے ان دنوں ملک میں امن و امان کے حوالے سے جو خطرات ہیں ان میں بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس میں کئی کالعدم تنظیمیں اور بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت کے گروہ شامل ہیں۔ پاکستان نے اس امن کے لیے برسوں قربانیاں دی ہیں، ہمارے فوجی جوانوں نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، دشمن ایک مرتبہ پھر حرکت میں ہے لیکن اسے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسلام آباد میں مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے۔ بم ڈسپوزل، سپیشل برانچ اور کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار کالجوں اور جامعات کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تین جامعات کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ حساس اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے سکیورٹی الرٹ کی بنیاد پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
ڑوب میں فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں سات دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان کے ضلع ڑوب کے علاقے سمبازہ سیکٹر میں سکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں سات دہشتگرد مارے گئے۔ ہلاک دہشتگرد سکیورٹی فورسز پر حملوں اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے، ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا جب کہ علاقے میں پائے جانے والے دیگر دہشتگردوں کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ابا شہید چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کے حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار شہید ہوا ہے۔ دہشتگردوں نے ابا شہید چیک پوسٹ پر حملے کے بعد کوئیک رسپانس فورس کی بھرپور جوابی کارروائی سے دہشتگرد فرار ہو گئے تاہم اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں کوئیک رسپانس فورس کا ایک اہلکار شہید ہو گیا۔ فائرنگ کے تبادلے سے گولیوں کی زد میں آ کر کھیتوں میں کام کرنیوالے دو مزدور جاں بحق اور دو زخمی بھی ہو گئے۔
دوسری طرف بلوچستان کے مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے الیکشن سے متعلق سکیورٹی ایڈوائزری جاری کی ہے جس کے مطابق خاتون خودکش حملہ آور اجتماعات اور رہنماؤں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ بلوچستان کے اضلاع کچھی، کوہلو، خضدار اور مستونگ کے ڈپٹی کمشنرز نے انتخابی امیدواروں کوسکیورٹی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ایڈوائزری کے مطابق دہشت گرد انتخابی مہم میں سیاسی رہنماؤں اور اجتماعات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی آرام سے بیٹھ سکے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی احساس کرنا چاہیے کہ ملک کو ان حالات سے کیسے نکالنا ہے۔ ملک میں تعمیر اور ترقی کے لیے امن و امان کا برقرار رہنا نہایت ضروری ہے۔ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لیے حالات کا سازگار ہونا اہم ہے۔ پاکستان ماضی میں انتخابات کے موقع پر بہت بڑے نقصان برداشت کر چکا ہے۔ ان دنوں بھی سیاسی اجتماعات دشمن کے نشانے پر ہیں۔ اللہ رحم کرے اور آئندہ چند دن خیر و عافیت سے گزریں۔ یہ حالات ہمارے لیے اور سیاسی قیادت کے لیے بھی سبق ہیں۔ ہم کب تک نفرت کی سیاست کرتے ہوئے دشمن کو حملہ آور ہونے کا موقع دیتے رہیں گے۔
آخر میں خلیل الرحمٰن اعظمی کا کلام
وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا
گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا
یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی
ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا
ان گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں
جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا
وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں
جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتا تھا
کوئی پرانا ساتھی بھی شاید ہی ہمیں پہچان سکے
ورنہ اک دن شہر وفا میں اپنا سکہ چلتا تھا
شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا
مٹی میں جو بیج بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا
اب کے ایسے پت جھڑ آئی سوکھ گئی ڈالی ڈالی
ایسے ڈھنگ سے کوئی پودا کب پوشاک بدلتا تھا
آج شب غم راس آئے تو اپنی بات بھی رہ جائے
اندھیارے کی کوکھ میں یوں تو پہلے سورج پلٹا تھا
دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی کہنے جب بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا