لاہور( کامرس رپورٹر) پاکستان کا زرعی شعبہ بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال ہے اور ملک اس شعبہ میں عالمی رہنما بن سکتا ہے لیکن ریسرچ کلچر کے فقدان کی وجہ سے متحرک کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں "چاول کا شعبہ اور اس کی برآمدی صلاحیت" پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے‘چیئرمین پاکستان ہائی ٹیک ہائبرڈ سیڈ ایسوسی ایشن شہزاد علی ملک نے پاکستان میں مالی‘ ادارہ جاتی اور انسانی وسائل سمیت ان تمام رکاوٹوں کی نشاندہی کی جو زرعی شعبے کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔انہوں نے کہا کہ چاول ٹیکسٹائل کے بعد دوسرا بڑا برآمدی شعبہ ہے۔ پاکستان چاول کی برآمدات 2002 میں 462 ملین ڈالر تھیں جو2023 میں 2.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رواں سال کے دوران چاول کی برآمد 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیگی۔تاہم ریسرچ کلچر کو فروغ دیکر اس سے کہیں زیادہ برآمدی ہدف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں چاول کی دو اقسام باسمتی اور نان باسمتی ہیں۔ باسمتی چاول پاکستان کا ورثہ ہے اور بنیادی طور پر پنجاب میں اگایا جاتا ہے۔ پاکستان کے چاول کے شعبے میں 2028 ء تک 5 بلین ڈالر اور دس سال میں 10 بلین ڈالر تک کی برآمدات کی گنجائش ہے۔ سندھ میں اگائے جانیوالے اری قسم کے چاول 1960 کی دہائی میں انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فلپائن سے حاصل کیے گئے تھے۔