دیدہ و دل ۔۔ ڈاکٹر ندا ایلی
بڑے دنوں بعد وہ میکے آئی تھی ۔ کتنے ہی کام آگے پیچھے جمع ہو گئے تھے ۔ بچوں کی سردیوں کی شاپنگ، ان کے لئے چکن نیگٹس جو بنا کر فریز کرنے تھے ۔، اپنی شرٹس جن کے میچنگ دوپٹے لانے تھے ۔میاں کی سٹڈی ٹیبل کی سٹنگ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کئی دنوں سے بالوں میںکنگھی ہی نہیں ہو پا رہی ۔۔ بال خشک اور بے جان ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ اچانک ماں نے کہا۔ آﺅ تمہارے بالوں میں تیل لگا دوں ۔۔۔ اور وہ اپنے بال کھول کر ماں کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ ۔ماں نے دھیرے دھیرے بال سنوارنے کے بعد اپنی پرانی گلابی بوتل سے وہی خوشبو دار تیل نکالا جو وہ بچپن سے اس کے سر میں لگاتی آئی تھیں۔ اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کے سر کے تمام حصوں تک پہنچتی اس کی ماں گویا ہر سمت سے اس کی خیریت طلب کر رہی تھیں۔ ۔۔ جسم سے آگے روح تک کا حال پوچھ رہی تھیں۔ ۔۔ کچھ پرانے زخموں پر ، ۔۔۔جو ہاتھ لگائے بغیر اب درد نہیں کرتے لیکن ہاتھ لگانے پر آنکھ میں آنسو اور دل میں درد کی ایک ٹیس سی پیدا کر دیتے ہیں۔۔۔۔ بنا کہے ہی مرہم رکھ رہی تھیں۔۔۔۔ وہ اس کی چوٹی میں بکھرے بال سمیٹتے ہوئے گویا اس کی ذات کے بکھرے دھاگے سمیٹ رہی تھیں ۔۔ اسے یہ سب محسوس ہو رہا تھا کہ اچانک ماں کی آواز آئی ۔۔ چلو ہو گیا ۔۔۔
اس نے اٹھ کر خود کو آئینے میں دیکھا تمام بال قرینے سے پیچھے کو بندھے ہوئے تھے ۔۔ ایسے کہ ماتھا بالکل شفاف نظر آ رہا تھا۔۔ تیل کی کچھ بوندیں ماتھے پر یوں چپکی ہوئی تھیں گویا انہیں پیچھے سرک جانے کا خوف ہو۔ اس نے مڑکر ماں کی طرف دیکھا گویا کہہ رہی ہو ۔۔ اماں ۔۔میں کچھ دنوں بعد بکھرے بالوں کے ساتھ پھر آﺅں گی۔