برصغیر میں بسنے والے ہم جیسے شرفا اور معصومین کی اکثریت دیگر بیشمار حماقتوں کی طرح دریائے نیل کے بارے میں بھی ان گنت غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ دریا کی وجہ تسمیہ اس کے پانیوں کا نیلا رنگ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یونانیوں نے اس علاقے کو نیلیوس (NELIOS) کہہ کر تاریخ کی کتابوں میں محفوظ کیا جس کا مطلب ہے ’’دریا کی وادی‘‘ چنانچہ لفظ ’’نائیل‘‘ (NILE) اسی یونانی لفظ نیلیوس سے نکلا ہے۔ جہاں تک اس کے رنگ کا تعلق ہے‘ تو یہ دو شاخوں کی شکل میں نکلتا ہے۔ پہلی شاخ جو نیل ابیض یعنی ’’سفید نیل‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے‘ یوگنڈا کی جھیل وکٹوریہ سے نکلتی ہے۔ دوسری شاخ کو ’’نیل ازرق (نیلا)‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے پانی کی رنگت سبزی مائل نیلی ہے اور اس کا منبع جھیل تانا‘ ایتھوپیا ہے۔ چونکہ پانی کا بہاؤ اس شاخ میں زیادہ ہے اس لئے سمندر میں گرنے تک دریا کی رنگت سبزی مائل نیلی ہی رہتی ہے جس کی مناسبت سے ہندوستانی سیاحوں نے اسی رنگت کو اس دریا کی وجہ تسمیہ قرار دے ڈالا حالانکہ یہ غلط ہے۔
دریائے نیل اور اس کی شاخوں کا گزر نو مختلف ممالک میں سے ہوتا ہے جن میں یوگنڈا‘ سوڈان‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ زائرے‘ کینیا‘ تنزانیہ‘ روانڈا اور برونڈی شامل ہیں۔ اس دریا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے منبع سے چار ہزار ایک سو چوراسی میل کا سفر جنوب سے شمال کی طرف کرتے ہوئے سکندریہ کے مقام پر بحیرہ روم یعنی ’’میڈیٹرنین سی‘‘ میں جا گرتا ہے۔ فطری اصول کے منافی یعنی جنوب سے شمال کی طرف بہنے کی چھوٹی موٹی مثالیں تو مل جاتی ہیں مگر ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبی مثال اور کوئی نہیں۔ اس کے پیچھے کسی مافوق الفطرت قوت کا ہاتھ یا کسی پیر فقیر کا کرشمہ نہیں بلکہ سیدھی سی بات ہے کہ مذکورہ پہاڑی علاقے کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ نشیبی علاقہ جنوب کی بجائے شمال کی طرف پھیلتا چلا گیا ہے۔
مشہور زمانہ اسوان سمیت اس دریا کے اوپر چار بڑے اور اہم ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس سے متعلق دوسری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر قدیم مؤرخین کی چشم تصور بیچارے فرعون رعمسیس کو نیل میں ہی غرقاب ہوتا دیکھتی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دریا دنیا کا طویل ترین دریا ہے مگر اس کا پاٹ اور گہرائی کسی ایک مقام پر بھی ایسے نہیں کہ کسی بڑے لشکر کو جس میں باآسانی ڈبویا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ بحیرہ احمر میں پیش آیا تھا!
شرم الشیخ میں قیام کے دوران ہمیں جن دلچسپ باتوں کا پتہ چلا ان میں ایک تو یہ تھی کہ یہ علاقہ مشہور زمانہ ایمن الظواہری کا علاقہ ہے۔ الظواہری کو اس کے اپنے لوگ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں البتہ امریکہ نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔
دوسری دلچسپ بات یہی تھی کہ فرعون رعمسیس بحیرہ احمر میں ڈوب کر مرا تھا۔ بائیس سو کلومیٹر طویل یہ سمندر ایک طویل تنگ درے کی شکل میں موجود ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کو براعظم افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ پچھلی سے پچھلی صدی میں مصر کے شہر سویز کے مقام پر خشکی کا سینہ چاک کرکے ایک نہر کھودی گئی جس سے بحیرہ احمر کو بحیرہ روم کے ساتھ ملا کر یورپ اور ایشیا کے فاصلے کم کر دئیے گئے۔ بحیرہ احمر کی وجہ تسمیہ بارے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی سطح پر سرخ رنگ کی ایک مچھلی لاکھوں کی تعداد میں تیرتی نظر آتی ہے جس کے سبب اسے بحیرہ احمر کہا جاتا ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بعض مقامات پر اس سمندر کی رنگت قدرتی طور پر لال ہے چنانچہ اسے بحیرہ احمر کہا جاتا ہے۔ اس کا پاٹ سب سے چوڑے مقام پر تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر وسیع ہے۔ گہرائی کا عالم یہ ہے کہ بحیرہ احمر اوسطاً سولہ سو فٹ گہرا ہے جبکہ بعض مقامات پر یہ گہرائی تقریباً دو ہزار فٹ سے بھی تجاوز کرتی ہے۔ اس کے دو ایک انتہائی گہرے مقامات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ فرعون رعمسیس کا ڈوبنا بنتا تو واقعی یہیں تھا۔ اس سمندر میں شرفِ تیراکی حاصل کرنے کے بعد ہمیں اس نتیجے تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس کا پانی گرم اور کھارا ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
دریائے نیل اور اس کی شاخوں کا گزر نو مختلف ممالک میں سے ہوتا ہے جن میں یوگنڈا‘ سوڈان‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ زائرے‘ کینیا‘ تنزانیہ‘ روانڈا اور برونڈی شامل ہیں۔ اس دریا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے منبع سے چار ہزار ایک سو چوراسی میل کا سفر جنوب سے شمال کی طرف کرتے ہوئے سکندریہ کے مقام پر بحیرہ روم یعنی ’’میڈیٹرنین سی‘‘ میں جا گرتا ہے۔ فطری اصول کے منافی یعنی جنوب سے شمال کی طرف بہنے کی چھوٹی موٹی مثالیں تو مل جاتی ہیں مگر ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبی مثال اور کوئی نہیں۔ اس کے پیچھے کسی مافوق الفطرت قوت کا ہاتھ یا کسی پیر فقیر کا کرشمہ نہیں بلکہ سیدھی سی بات ہے کہ مذکورہ پہاڑی علاقے کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ نشیبی علاقہ جنوب کی بجائے شمال کی طرف پھیلتا چلا گیا ہے۔
مشہور زمانہ اسوان سمیت اس دریا کے اوپر چار بڑے اور اہم ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس سے متعلق دوسری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر قدیم مؤرخین کی چشم تصور بیچارے فرعون رعمسیس کو نیل میں ہی غرقاب ہوتا دیکھتی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دریا دنیا کا طویل ترین دریا ہے مگر اس کا پاٹ اور گہرائی کسی ایک مقام پر بھی ایسے نہیں کہ کسی بڑے لشکر کو جس میں باآسانی ڈبویا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ بحیرہ احمر میں پیش آیا تھا!
شرم الشیخ میں قیام کے دوران ہمیں جن دلچسپ باتوں کا پتہ چلا ان میں ایک تو یہ تھی کہ یہ علاقہ مشہور زمانہ ایمن الظواہری کا علاقہ ہے۔ الظواہری کو اس کے اپنے لوگ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں البتہ امریکہ نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔
دوسری دلچسپ بات یہی تھی کہ فرعون رعمسیس بحیرہ احمر میں ڈوب کر مرا تھا۔ بائیس سو کلومیٹر طویل یہ سمندر ایک طویل تنگ درے کی شکل میں موجود ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کو براعظم افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ پچھلی سے پچھلی صدی میں مصر کے شہر سویز کے مقام پر خشکی کا سینہ چاک کرکے ایک نہر کھودی گئی جس سے بحیرہ احمر کو بحیرہ روم کے ساتھ ملا کر یورپ اور ایشیا کے فاصلے کم کر دئیے گئے۔ بحیرہ احمر کی وجہ تسمیہ بارے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی سطح پر سرخ رنگ کی ایک مچھلی لاکھوں کی تعداد میں تیرتی نظر آتی ہے جس کے سبب اسے بحیرہ احمر کہا جاتا ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بعض مقامات پر اس سمندر کی رنگت قدرتی طور پر لال ہے چنانچہ اسے بحیرہ احمر کہا جاتا ہے۔ اس کا پاٹ سب سے چوڑے مقام پر تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر وسیع ہے۔ گہرائی کا عالم یہ ہے کہ بحیرہ احمر اوسطاً سولہ سو فٹ گہرا ہے جبکہ بعض مقامات پر یہ گہرائی تقریباً دو ہزار فٹ سے بھی تجاوز کرتی ہے۔ اس کے دو ایک انتہائی گہرے مقامات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ فرعون رعمسیس کا ڈوبنا بنتا تو واقعی یہیں تھا۔ اس سمندر میں شرفِ تیراکی حاصل کرنے کے بعد ہمیں اس نتیجے تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس کا پانی گرم اور کھارا ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔