لاہور (سلمان غنی) علاقائی سلامتی اور استحکام کا دارومدار مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے، پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکراتی عمل میں علاقائی صورتحال، معاشی معاملات اور دہشت گردی کے رجحانات ہی نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر بات ہوگی، کشمیر ایجنڈا پر موجود ہو یا نہ ہو لیکن پاکستان کیلئے کور ایشو کشمیر ہی ہے اور کوئی حکومت یا حکمران کشمیر کی اہمیت سے پہلوتہی نہیں کر سکتا۔ یہ بات حکومتی ذرائع نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق 27-26 جولائی کو دہلی میں ہونے والے مذاکراتی عمل کے حوالے سے اسلام آباد میں غور و خوض کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکرٹریوںکی سطح پر ہونے والے مذاکراتی عمل،اس کے اثرات اور نتائج کو بنیاد بناتے ہوئے وزراءخارجہ کی سطح پر مذاکراتی عمل کی تیاری جاری ہے اور نئی وزیر خارجہ کیلئے مذکورہ مذاکراتی عمل پر متعدد بریفنگز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کیلئے کشمیر یا کشمیری اہمیت نہ رکھتے تو مذکورہ مذاکراتی عمل سے قبل کشمیری قیادت سے ملاقات کا اہتمام اور انتظام نہ کیا جاتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ درست کہ کشمیر پر بات چیت ایجنڈا کاحصہ نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مسلہ کشمیر کے حل کی جانب پیشرفت کا بہترین ذریعہ مذاکرات کا عمل ہی ہے اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ کشمیر کی بات کیسے اور کہاں کرنی ہے۔ حکومتی ذرائع نے اس امر کی تو تردید کی کہ مذکورہ مذاکراتی عمل امریکی دباﺅ پر ہیں البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپین یونین بھی یہی چاہتے ہیں کہ کمشیر سمیت دیگر بنیادی تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہئے اور مذاکراتی عمل جاری رہنا چاہئے۔ حکومتی ذمہ دار نے تسلیم کیا کہ اس مرحلہ پر اپوزیشن کے ذمہ داران کو اعتماد میں تو نہیں لیا گیا لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ذمہ داران سے وزارت خارجہ کے حکام کا رابطہ رہتا ہے اور ہم ان کے جذبات اور احساسات سے واقف ہیں۔ مذکورہ ذرائع نے نئی وزیر خارجہ کی بھارت سے مذاکرات میں اہلیت پر کسی تبصرے سے احتراز برتتے ہوئے کہا کہ وہ باصلاحیت خاتون ہیں اور ان کے دورہ سے قبل ان کیلئے متعدد بریفنگز کا اہتمام کیا گیا ہے اور وہ ملکی مفادات اور پاکستان کے بھارت کے حوالے سے تحفظات سے خوب آگاہ ہیں۔ مذکورہ ذرائع کا کہا ہے کہ وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں کشمیر پر کسی بڑی پیشرفت کا تو امکان نہیں البتہ ان مذاکراتی عمل پر مستقبل کے مذاکرات کا انحصار ہے اور ہماری کوشش ہوگی کہ مذکورہ مذاکراتی عمل میں کشمیر کے تنازعہ پر کسی سنجیدہ پیشرفت کی یقین دہانی حاصل ضرور کر لی جائے۔ اگر بھارت نے مذاکرات میں دہشت گردی کا رونا رونے پر ہی اکتفا کرنے کی کوشش کی تو پھر ہمارے پاس مقبوضہ کشمیر کے اندر کی صورتحال اور خصوصاً انسانی حوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کا آپشن ہوگا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مبمبئی میں حالیہ دھماکوں کے بعد بھارتی طرز عمل میں بہتری آئی ہے جسے ہم تنازعات کے حل کیلئے بروئے کار لانا چاہیں گے۔
حکومتی ذرائع