ایٹمی پاکستان اور عالم اسلام

عالم اسلام کےلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے زمانوں میں کچھ متبرک و باعزت ایام مقرر فرمائے ہیں اور کچھ ایام ایسے ہیں جنہیں ذلت و خواری کے ایام کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایام العزت اور ایام الذلت بنی نوع انسان کی زندگی کی تقدیرات میں شامل ہیں۔ اسی طرح یوم تکبیر 28مئی 1998ءکو اسلامیان پاکستان کےلئے متبرک اور باعزت دن قرار پایا، یہ وہ دن تھا کہ جس دن پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے اور 30مئی 1998ءکو چھٹا دھماکہ کیا تو محسوس ہوتا ہے کہ 1954ءمیں اس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرا نے وہائٹ ہاﺅس میں امریکہ کے صدر آئزن ہاور سے ملاقات کے دوران یہ عندیہ پیش کر دیا تھا کہ پاکستان، امریکہ کے ایٹم برائے امن کے منصوبہ میں شامل ہو گا اور انہوں نے پاکستان میں جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اورترقی کے حوالے سے ایک جوہری توانائی کے کمیشن کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن یہ باور کرایا گیا تھا کہ یہ جوہری توانائی اسلحہ کی تیاری کےلئے نہیں ہو گی۔ یہ تھی 1954ءسے جوہری توانائی کی طرف پیش رفت۔
جہاں تک پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حصول کی تاریخ کا تعلق ہے تو وہ ایسے ہے کہ 1956ءمیں ہی ایٹمی پروگرام کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ پہلا ایٹمی ری ایکٹر نیلور (NILORE) اسلام آباد میں دسمبر 1965ءمیں قائم کیا گیا۔ فرانس اور پاکستان کے مابین اکتوبر 1974ءمیں ایٹمی ری پراسسینگ پلانٹ سمجھوتہ ہوا۔ جولائی 1976ءمیں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری، جو موجودہ اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کہلاتی ہے قیام پذیر ہو گئی۔ پھر اگست 1977ءمیں فرانس نے پاکستان کو نیوکلیئر پراسیسنگ پلانٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
 1980ءمیں کہوٹہ میں نیوکلیئر ری پراسیسنگ پلانٹ کہوٹہ نے اپنا کام خوب شدومد سے سرانجام دینا شروع کر دیا۔ اپریل 1979ءمیں امریکہ نے پاکستان پر ایٹمی ری پراسسینگ پروگرام کے حوالے سے اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں لیکن پاکستان 1981ءمیں یورینیم افزدوگی کے میدان میں سرخرو ہو گیا۔ 10فروری 1984ءپاکستان نے کہوٹہ پلانٹ کے ذریعے ایٹم بم تیار کرنے کی صلاحیت و قابلیت حاصل کر لی تھی اور اس کا اعلان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے خود فرمایا تھا۔ ستمبر 1984ءمیں امریکہ کے صدر ریگن نے صدر ضیاالحق کو پانچ فیصد سے یورینیم افزودہ کرنے کے حوالے سے سخت ترین نتائج کی دھمکیوں سے نوازا۔ جولائی 1985ءمیں امریکی کانگریس کی طرف سے غیرملکی امداد ایکٹ 1961ءکی دفعہ 620ای او ای، میں ترامیم ہوئیں اور پاکستان کو پابند بنایا گیا کہ وہ صدر امریکہ کو ہر ماہ اقتصادی امداد سے قبل جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کا سرٹیفکیٹ دیا کرے۔
 یکم مارچ 1987ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کلدیپ نیئر سے انٹرویو نے ایک زبردست دھماکہ کر دیا جس میں خان صاحب نے ایٹم بم بنانے کا انکشاف کیا۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے پیش نظر امریکی کانگریس میں یکم مارچ 1987ءمیں گرما گرم بحث کا آغاز ہو گیا۔ 16نومبر 1989ءمیں چینی وزیراعظم لی پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا اور 300 میگا واٹ ایٹمی پلانٹ دینے کا اعلان کیا۔ پھر وہ متبرک و باعزت دن پاکستانی کو قوم کو نصیب ہواکہ جس دن یعنی 28مئی 1998ءکو پاکستان آخری اور چھٹا دھماکہ کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن کر ابھرا اور عالم اسلام کی پہلی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان نے اپنے میزائل پروگرام میں خاص پیش رفت کی۔ 1999ءمیں میزائل پروگرام کو مزید اپ گریڈ کیا گیا او غوری 2کا کامیاب تجربہ کیا اور اس سے اگلے ہی دن شاہین میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت کو نیچا دکھا دیا۔
بدقسمتی سے 1993ءمیں جب اسمبلیاں ٹوٹیں اور معین قریشی وزیراعظم پاکستان مقرر ہوئے تو انہوں نے امریکہ کی ہدایت پر یہ اعلان فرمایا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔ چنانچہ 1994ءمیں سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک جلسہ عام میں یہ بات برملا کہی کہ پاکستان ایٹم بم موجود ہے۔ اس اعلان کےساتھ پوری ملت اسلامیہ پاکستان میں مسرت و انبساط کی زبردست لہر دوڑ گئی اور قوم کا حوصلہ بلند ہوا۔ ان دھماکوں کا سارا کریڈٹ جناب عبدالقدیر خان صاحب کو جاتا ہے۔ میں پوری دیانتداری اور ایمانداری اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے لئے جناب عبدالقدیر خان وہ مرد مجاہد ہیں جنہوں نے میرے ملک پاکستان عالیشان کو شان و شوکت سے ہمکنار کیا۔ وگرنہ بھارت نے پاکستان کی سرحد سے بالکل قریب 150کلومیٹر دور، راجستھان کے علاقے پوکھران میں 11مئی 1998ءکو تین ایٹمی دھماکے کئے۔ 13مئی 1998ءکو دو دھماکے کر کے علاقائی امن و سلامتی کو شدید خطرات سے ہمکنار کر دیا تھا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکوں پر ہی بس نہ کیا بلکہ بھارتی مشرقی ریاست اڑیسہ میں چندی پور فائر رینج میں اپنے ترشول میزائل کا تجربہ بھی کیا۔ چنانچہ 11مئی کے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہایت بامعنی اور باحوصلہ مرد مجاہد کی طرح ایک بیان دے کر قوم کا سر بلند کر دیا کہ ”ہم تو باورچی ہیں، صاحب خانہ جس طرح کا حکم دیں گے ویسی ہانڈی تیار کر دیں گے۔ وزیراعظم نے جب حکم دیا ہم ایٹمی دھماکہ کر دیں گے۔“
 اس وقت کے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان صاحب کا بیان تھا کہ ایٹمی دھماکہ کرنے کےلئے سوال ”اگر“ کا نہیں ہے بلکہ ”کب“ کا تھا۔ عالمی طاقتیں بھارت کو ایٹمی دھماکوں سے نہ روک سکی تھیں۔ الٹا بل کلنٹن صدر امریکہ کے نواز شریف نے چھ ٹیلی فونوں کو دھماکے میں اڑا دیا۔ اس نازک صورتحال میں حکومتی سطح پر سوچ بچار جاری تھی کہ وزیراعظم ہاﺅس میں صحافیوں سے میٹنگ کے دوران مجاہد صحافت جناب مجید نظامی نے کہہ دیا کہ اگر نواز شریف دھماکہ نہیں کرینگے تو قوم ان کا دھماکہ کر دےگی۔ چنانچہ ایٹمی دھماکوں کے بعد اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم سے تاریخی خطاب میں کہا کہ پاکستانی قوم کو غلامی کا راستہ قبول نہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اگر پاکستان پر پابندیاں عائد کی گئیں تو ہم پیٹ پر پتھر باندھ کر ان پابندیوں کا مقابلہ کریں گے۔ پاکستانی قوم بزدل قوم نہیں۔ وہ کسی کے سامنے جھکنا نہیں جانتی۔ علامہ اقبال نے فرمایا:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!
حضرت قائداعظمؒ دسمبر 1946ءکو جب انگلستان سے واپس لوٹے تو قاہرہ میں آ کے رکے۔ انہوں نے وہاں عرب ممالک اور ملت اسلامیہ کے تمام سربراہان مملکت، صحافیوں، دانشوروں اور قومی بزرجمہروں سے خطاب فرماتے ہوئے کچھ ارشادات گوش گزار فرمائے کہ آپکا کیا خیال ہے کہ برصغیر کے مسلمان صرف اپنے لئے ایک علیحدہ آزاد و خودمختار مملکت کےلئے کوشاں ہیں اور بے حد قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ یہ بجا ہے لیکن شاید آپکے یہ خیال اور گمان میں نہیں کہ ہم برصغیر میں تمام عالم اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہماری یہ جنگ ہندو استعماریت اور انگریزی استبدادیت اور جبر کےخلاف آپ کو محفوظ کرنے کےلئے ہے کہ آپ کو ہندو کی مہابھارتی سکیم سے محفوظ کر لیا جائے جس کا مطمح نظر یہ ہے کہ وہ تمام مشرق وسطیٰ پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ ہم برصغیر میں آپکی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ آپ تمام اسلامی ممالک آزادی و خودمختاری اور امن و سکون کے ساتھ اپنی درخشندہ تاریخ کی روشنی میں عروج و کمال حاصل کرتے رہیں، اس خطاب کا تمام سربراہان پر انتہائی اثر وارد ہوا اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں نے خوب سراہا اور عرب ممالک کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ حضرت قائداعظمؒ کے ارشادات عالیہ کو پیش کیا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان، بھارت اور اسلامی ممالک کے درمیان ایک دیوار چین اور کوہ ہمالیہ بن کر ابھرا جس کا احساس نہ اس وقت اسلامی دنیا کو ہوا اور نہ آج تک محسوس کیا جا رہا ہے۔ لیکن جو حشر امریکہ اور اسکے اتحادیوں اور گماشتوں نے افغان، فلسطین، عراق اور چیچنیا میں برپا کر رکھا ہے وہ پورے عالم اسلام کےلئے زہرناک کینسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ خون مسلم جس قدر اس موجودہ دور میں ارزاں ہے اسکی مثال تاریخ انسانیت میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ ایٹمی پاکستان عالم اسلام کےلئے حصار اسلام ہے۔ حصار ایمان و ایقان ہے جس کا تحفظ تمام عالم اسلام کا دینی فریضہ بھی ہے۔ ایٹمی پاکستان نعمت الٰہیہ بھی ہے۔ ایٹمی پاکستان محافظ عالم اسلام بھی ہے۔ ایٹمی پاکستان ایمان و ایقان بھی ہے۔ اے اسلامیان پاکستان! اس نعمت الٰہیہ کی قدر کریں۔

ای پیپر دی نیشن