اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ) عدالت عظمیٰ نے خانےوال میں مبینہ طور پر ”بااثر زمیندار کی ہوس پوری نہ کرنے کی پاداش میں سنگسار کی گئی مریم“ کے قتل کی شفاف تحقیقات نہ کرنے پر وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو تین روز کے اندر اندر آئی جی پنجاب، آر پی او ملتان، ڈی پی او خانےوال، ایس ایچ او تھانہ کچا کھوہ سمیت دیگر متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے اس کی رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو دینے کی ہدایت کی ہے جبکہ فاضل عدالت نے مریم کے خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ تفتیشی سے لے کر آئی جی پنجاب تک کوئی عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ آئی جی سمیت کسی پولیس افسر نے قتل کے اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا حالانکہ پولیس شہریوں کے زندگی کے حق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی پولیس کو تفتیش کے لئے ایک اور موقع دینے اور آج ان کے خلاف آرڈر پاس نہ کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو آئی جی پنجاب، آر پی او ملتان، ڈی پی او خانےوال اور دیگر پولیس افسران کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتر اوصاف علی پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ کی تفتیش کے لئے ایماندار افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی وقوعہ کے روز ملتان میں تھے مگر انہیں واقعہ کا کیوں علم نہیں ہوا۔ انہوں نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ آپ ملتان الیکشن کے سلسلے میں گئے تھے تو ہمیں اس سے غرض نہیں۔ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے 19 جولائی کو ہی آر پی او سے رپورٹ لی تھی۔ ڈی پی او نے بتایا کہ سرفراز نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے اس کے مطابق بیوی نے زمینداروں سے جھگڑا کیا میں نے اسے منع کیا کہ وہ جھگڑا نہ کرے تو وہ طیش میں آ گئی اس نے اینٹ اٹھا کر مجھے ماری، میں نے بھی جوابی اینٹ ماری جس سے وہ جاںبحق ہو گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج میڈیا میں یہی رپورٹ آئی ہے مگر عدالت کو پولیس کے اس بیان پر اعتماد نہیں یہ کہانی بنائی گئی ہے بادی النظر میں پولیس دراصل زمینداروں سے ملی ہوئی ہے۔ پولیس کا مذکورہ بیان اس کے اپنے اسی کیس میں سابقہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا، اس صورت میں کیا آئی جی ملازمت جاری رکھنے کے قابل ہے۔ سارے جرم کی ذمہ داری آخرکار آئی جی پر آئے گی۔ ایک خاتون کی جان نہیں گئی انسانیت کا قتل ہوا ہے۔ ڈی پی او نے بتایا کہ سرفراز کے سر میں بھی چوٹ کے نشان ہیں تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ پرانے ہیں جن کے طبی معائنے کے لئے سرفراز نے مجسٹریٹ کو درخواست بھی دے رکھی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرفراز وقوعہ کا واحد گواہ تھا پولیس نے اسے اپنی پاس رکھا جلدی میں برآمد کیا او وقوعہ اس پر ڈال دیا۔ آئی جی صاحب قیامت تو آئے گی اس دنیا میں بھی حساب ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل شفیع محمد چانڈیو سے پوچھا کہ عدالت نے گذشتہ سماعت پر آئی جی سے متعلق وفاق کے نوٹس میں لانے کا کہا تھا اس کا کیا ہوا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ معاملہ نوٹس میں لایا گیا تھا مگر تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں وزیراعظم کارروائی کیسے نہیں کرتے ملک سے ظلم ختم کرنا ہو گا۔ انتظامیہ اپنا کام نہیں کرے گی تو عدالت کو حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو ہمیں چار چار بجے تک نہ بیٹھنا پڑے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی سے متعلق ابھی فیصلہ ہو گا ا ور ابھی فارغ کریں گے۔ پولیس نے مقدمے کا فیصلہ کر لیا ہے جن کو بچانا تھا بچا رہے ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب سے کہا کہ وزیراعظم کو بتا¶ کہ ریم کے چھوٹے چھوٹے بچے کس حالت میں ہیں؟ ان کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آئی جی نے کہا کہ تفتیش ابھی مکمل نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے، تین ملزمان ایک فریق کے گرفتار کئے ہیں سرفراز کے خلاف بھی شہادتیں ہیں تفتیش مکمل ہونے دیں قبل از وقت نتیجہ نکالنا درست نہیں، ہم نے اللہ کو حاضر ناصر جان کر تفتیش کی ہے باقی فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ سرفراز کے والد صدیق نے عدالت کو بتایا کہ پنچایت نے مریم اور سرفراز کے قتل کا فیصلہ کیا تھا مگر گرفتار میرے بیٹے کو کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے اس پر تشدد کیا ہے اور مجھے ملاقات بھی نہیں کرنے دیں۔ اسلم ملکانی نے سرفراز سے کہا کہ اگر اس نے بیوی کے قتل سے متعلق اپنا بیان بدلا تو اسے فوری طور پر گولی مار دی جائے گی۔ میاں شہباز شریف نے گھر گھر جا کر پوچھا کہ کیا میاں بیوی کا کوئی جھگڑا تھا یا انہوں نے کبھی انہیں لڑتے ہوئے دیکھا مگر کسی نے تصدیق نہیں کی۔ جب ان کے درمیان کوئی تنازعہ ہی نہیں تھا تو قتل کی وجہ کیا ہے اور پھر ہم بھی ساتھ ہی رہتے ہیں، درمیان میں چھوٹی سی دیوار ہے ہم نے تو اس رات کوئی جھگڑے کی آواز نہیں سنی۔ عدالت نے ڈی پی او سے ایف آئی آر پڑھوا کر سنی جس کے مطابق قتل 9 افراد نے کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام حالات و واقعات اس ایف آئی آر کی حمایت کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی پی او صاحب ایک انسانی جان گئی ہے غریب تھی تو کیا ہوا، خدا کا خوف کریں، آپ نے بھی اللہ کو جان دینی ہے۔ ایس ایچ او ان زمینداروں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اب سرفراز کو کیس میں پھنسا کر پولیس نے شک پیدا کر دیا ہے اب درست تفتیش کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ آخر سرفراز کی بازیابی کے فوری بعد حراست میں کیوں لے لیا گیا وہ تو مظلوم تھا اس کی بیوی قتل ہوئی تھی۔ عدالت نے ازخود نوٹس نمٹاتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے کہا کہ تین دنوں میں معاملے کو دیکھیں اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو رپورٹ دی جائے، اگر ان افسران کے خلاف مقررہ مدت میں ایکشن نہ ہوا تو عدالت مناسب آرڈر پاس کرنے کے لئے دوبارہ سماعت کرے گی، جو نئے افسران آئیں وہ قتل کے واقعہ کی شفاف تحقیقات یقینی بنائیں جبکہ آئی جی پنجاب مریم کے خاندان کو تحفظ فراہم کریں۔ آئی این پی کے مطابق ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی کی ناجائز حمایت کرنا نہیں سیکھا، راجے چھوٹ جائیں اور غریب مارا جائے یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔