پاکستان میں بے شمار ایسی شخصیات ہیں جو عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے اپنی اپنی سطح پر ایسا تعمیری کام انجام دے رہی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مثلاً بے روزگاری اور غربت پاکستان کا ایک بہت سیریس مسئلہ ہے عالمی ادارے بار بار پاکستان کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مرکوز کرنے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن حکومت کی مثال چکنے پتھر جیسی ہے جس پر بوند پڑی اور پھسل گئی۔ ان حالات میں ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جو صرف دس ہزار روپے ہے ایک غیر سودی قرضے فراہم کرنے والی تنظیم اخوت 2001 میں قائم کرتے ہیں اور صرف بارہ سال گزرنے کے بعد اخوت ایک تناور درخت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس وقت 115 شہروں میں اس کے 180 دفاتر قائم ہیں اور گلگت سے لے کر بحیرہ عرب تک ساڑھے تین لاکھ افراد اخوت سے بلاسود قرض حاصل کر کے غربت کی لکیر سے اوپر آ کر نہ صرف خود اپنا روزگار پیدا کر کے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں بلکہ دوسرے افراد کو ملازمت کے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مائیکرو فنانسنگ میں دنیا پہلے بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک کی مثال دیا کرتی تھی۔ ڈاکٹر یونس نے گرامین بینک کے ذریعہ سے خواتین کی معاشی حالت بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ گرامین بینک خواتین کو معقول سود پر قرضے فراہم کرتا تھا۔
لیکن اب ہارورڈ یونیورسٹی اخوت کے ماڈل پر بحث کرنے کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کو امریکہ بلاتی ہے۔ ایک روز پہلے اخوت کی طرف سے جی او آر ون کے سروسز کلب میں دی گئی افطار پارٹی میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے نوائے وقت کو بتایا ”ہارورڈ کے کچھ اساتذہ کو بہت تجسس تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی این جی او بلا سود قرضے فراہم کرے اور معاشی طور پر زندہ رہے۔
جب میں نے انہیں اپنی کامیابی کا سفر بیان کیا تو سب حیران رہ گئے۔ انہیں سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ قرضے واپس کیسے مل جاتے ہیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ قرضوں کی واپسی کی شرح 99.8 فیصد ہے تو انکی حیرت دیدنی تھی۔ لیکن اسکے باوجود ایک پروفیسر کی رائے یہی تھی کہ بلا سود بینکاری کا مستقبل تاریک ہے اس لئے یہ تنظیم زیادہ عرصہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اخوت نے نہ صرف پاکستان کے غریبوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا بلکہ غیور پاکستانیوں نے قرضے واپس کرنے کی روایت بھی قائم رکھی جس کی وجہ سے اس وقت ساڑھے چار ارب روپے کے قرضے لاکھوں عوام کی معاشی حالت سدھارنے میں مصروف ہیں۔ اور مغرب کے تمام سوالوں کا علمی جواب دینے اور اخوت کی کامیابی کی داستان سنانے کیلئے میں ”اخوت کا سفر“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ چکا ہوں جو بہت جلد شائع ہو جائیگی۔ یہ اردو اور انگریزی زبان میں ہے۔ یقیناً اخوت کے کارنامے حیرت انگیز ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسکی کامیابی میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کا کردار اور حصہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس نے دس ہزار والی تنظیم کو اربوں کا مالک بنا دیا۔ یقیناً دنیا میں ایسے ہی لوگوں کا نام زندہ رہتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے ذاتی اغراض سے بالاتر ہو کر کچھ کرتے ہیں۔ (محمد مصدق)