لوڈشیڈنگ ”بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے“

Jul 24, 2013

بیدار سرمدی

لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ کراچی ایک ہوئے ۔لوڈشیڈنگ ۔ رمضان بازار۔ سب کا ایک سا حال ہے۔ہر شے خواہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو ایک اچھا اور مثبت پہلو بھی رکھتی ہے۔ لوڈشیڈنگ ہی کولے لیجئے۔ لوڈشیڈنگ نے بندہ وصاحب محتاج و غنی کواس طرح ایک صف میں کھڑا کیا ہے کہ لاہور‘ پشاور ، کوئٹہ اور کراچی کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ نہ جانے پنجاب اور خصوصاً لاہور اب تک کچھ فاصلے پر بیٹھے پاکستانی بھائیوں کا ہدف کیوں بنا رہا ہے۔ آج کل تو ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ملک کا وزیراعظم لاہور کا ہے مگر پنجاب اور لاہور کو لوٹ مار اور تخت لاہور ”جیسے طعنے تو بہت پہلے ملتے رہے ہیں۔ افسوس کہ بلوچستان کے پہاڑوں سندھ اور خیبر پختون خواہ کی وادیوں میں رہنے والے معصوم لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہی نہیں۔ سوا کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے لاہور شہر میں اپنے خرچ پر لوڈشیڈنگ فری زندگی گزارنے والا پوش ایریا تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ باقی لاہور‘ کا حال جاننا ہو تو کسی طرح لاہور کی عام بستیوں‘ محلوں‘ علاقوںکے بارے میں پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی خبروں کو پڑھا کیجئے”تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم“ والی بات ہے۔ ایسا محسوس ہو گا کہ جو صورت حال پشاور کوئٹہ کراچی اور دوسرے اہم شہروں کی عوامی بستیوں کی ہے۔ اس جیسی بلکہ اس سے کچھ بُری حالت لاہور کے اکثریتی علاقوں کے عوام کی ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز ہوا ہے۔ تو مذہبی اور نیکی کے میدان والی طبیعت کے حامل میاں صاحبان نے دوچار ارب روپے کی حکومتی امداد سے سستے رمضان بازار لگانے کا اعلان کیا۔ یوٹیلٹی سٹوروں کے ذریعے الگ سستے سامان کی فراہمی کا بندوبست کیا۔ اب سستی اشیاءکی فراہمی پر جس طرح کے تبصرے پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروںکے اخبارات میں چھپ رہے ہیں۔ بس اس قسم کی خبریں لاہورکے اخبارات کی زینت ہیں۔ ہر شہر میں وہاں کے ڈی سی او صاحبان حرکت میں ہیں لاہور میں ان دنوں ڈی سی او نسیم صادق‘ ملتان اور فیصل آباد میں اچھی شہرت کما کر لاہور آنے والے ڈی سی او صاحب ان دنوں لاہور بھر کے رمضان بازاروں میں بہتر اشیاءکی سپلائی‘ قیمتوں کے استحکام اور شہر میں نظم و نسق کے لئے دوڑے پھرتے ہیں ۔یہی حال تمام بڑے شہروں میں انتظامی افسران کا ہوگا یہ دوڑے پھرنے کی بات میں نے اس لئے لکھی ہے کہ کسی بھی شہر کے ڈی سی او نے خود اچھا مال مرکزی منڈی سے اٹھا کر نہیں لانا۔ اصل میں ایک بڑا کردار ان تاجروں کا بھی ہے جو مرکزی منڈی اور رمضان بازاروں میں اشیائے خورد و نوش‘ سبزیوں‘ پھلوں اور دوسرے ضروری سامان کی فراہمی سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ کیسا مال لیتے ہیں؟ کس طرح ماتحت سطح کے اہل کاروں اور خاص طور پر سیاسی ورکروں سے گٹھ جوڑ کرتے ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے ۔ ہمارے ڈی سی او صاحبان اسی گٹھ جوڑ کا توڑ کرنے میں بھی کچھ وقت لگاتے ہیں ۔دوسرے شہروں کے لوگ بھی بہت اچھے ہوں گے۔ لیکن میں لاہوریوں کی بات کروں تو لاہوریوں کی اکثریت زندہ دل‘ قانون پسند اور کھُلا دل رکھنے والی ہے۔ اصل مسئلہ ان مٹھی بھر افراد کا ہے جوذخیرہ اندوزی‘ تجاوزات پسندی اور قانون شکنی کو ”بہادری“ سمجھتے ہیں اور پکڑ دھکڑ کے وقت کبھی انتظامیہ میں کسی تعلق اور کبھی سیاسی جماعت کے ورکر یا ووٹر کی ڈھال لے کر انتظامیہ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ان مسائل کی حد تک لاہور اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اب لوڈشیڈنگ ایسا معاملہ ہے کہ جس نے بندہ اور بندہ نواز کو لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی ملتان‘ حیدرآبادکو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ کوئی مسئلہ اچھا نہیں ہوتا لیکن ان مسائل نے وقتی طور پر ہی سہی کم از کم ”تخت لاہور“ کے طعنے سے لاہوریوں کو بچا لیا ہے۔

مزیدخبریں