اسلام آباد (محمد نواز رضا+ وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) مسلم لےگ (ن) اور پےپلز پارٹی پارلےمنٹےرےنز نے صدارتی انتخاب مےں اپنے امےدواروں کی باضابطہ طور پر انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ پےپلز پارٹی پارلیمنٹرینز رضا ربانی کو اپوزےشن کا مشترکہ صدارتی امےدوار بنانے کی کوشش کررہی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اتفاق رائے کا صدارتی امیدوار لانے کیلئے کوشاں ہے۔ جمعےت علما ءاسلام (ف)، نےشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مسلم لےگ (ضےائ) اور فاٹا کے ارکان نے حکومتی امےدوار کی حماےت کی ےقےن دہانی کرائی ہے۔ پےپلز پارٹی پارلےمنٹےرےنز کے رہنماﺅں نے (ق) لیگ، عوامی نےشنل پارٹی، بلوچستان نےشنل پارٹی(عوامی) اور جے یو آئی (ف) کی قےادت سے ملاقاتےں کی ہےں۔ پےپلز پارٹی، بی اےن پی (عوامی) اور اے اےن پی نے مےاں رضا ربانی کو مشترکہ صدارتی امےدوار نامزد کر دےا ہے جبکہ (ق) لیگ نے اپنا صدارتی امےدوار مےاں رضا ربانی کے حق مےں دستبردار کرنے پر آمادگی کا اظہار کردےا ہے۔ میاں رضا ربانی آج پارٹی کے رہنماﺅں امین فہیم اور خورشید شاہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اعتزاز احسن کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ پیپلزپارٹی نے صدارتی امیدوار ربانی کیلئے لابنگ اور رابطے تیز کردئیے۔ 29 جولائی تک دن رات ایک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ پارٹی اراکین پارلیمنٹ کو بیرون ملک جانے سے روکدیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے اے این پی اور بی این پی کی حمایت بھی حاصل کرلی ہے اور انکا ایک ایک رکن تجویز اور تائید کنندہ میں شامل کرالیا ہے۔ خورشید شاہ نے اجلاس کو صدارتی الیکشن کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے ان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا تھا اور اپنے امیدوار کی حمایت طلب کی تھی لیکن میں نے جواباً ان سے رضا ربانی کے نام پر غور کرنے اور حمایت طلب کرنے کی بات کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی بھی رضا ربانی کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے امیدوار کیلئے خاصی حمایت لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ اجلاس میں ہم نے اپنے صدارتی امیدوار رضا ربانی کے کاغذات نامزدگی پ±ر کئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں رضا ربانی کی صلاحیتوں سے آگاہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کو آج صبح 9 بجے پارلیمنٹ ہاﺅس پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ صدر آصف زرداری نے صدارتی امیدوار کی حمایت کیلئے متحدہ کے قائد الطاف حسین سے رابطہ کیا ہے۔ پی پی کے رہنماﺅں خورشید شاہ اور رحمان ملک نے گورنر سندھ اور بابر غوری سے رابطہ کرکے مشترکہ صدارتی امیدوار لانے کی بات کی ہے۔ پی پی نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کیلئے عمران خان سے مذاکرات کیلئے اعتزاز احسن کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ پیپلزپارٹی کے وفد نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرکے صدارتی امیدوار رضا ربانی کیلئے حمایت طلب کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا صدارتی انتخاب کیلئے حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانے کیلئے کوشش کریں گے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہاکہ حکومتی جماعتیں بھی ساتھ ہیں اور ہم بھی حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہیں۔ متفقہ امیدوار کیلئے کوششوں کا ساتھ دیں گے، سیاسی تنازع نہیں ہونا چاہئے۔ پی پی اور جے یو آئی کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ (ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اکٹھی نہ ہوئی تو صدارتی الیکشن کا حصہ نہیں بنیں گے۔ عمران خان اور پیپلزپارٹی نے امیدوار پر اتفاق نہ کیا تو ہم ووٹ دینے سے گریز کریں گے۔ صدر وفاق کی علامت ہے، حکومت اور اپوزیشن کو متفقہ امیدوار لانا چاہئے۔اسلام آباد (اے پی پی) مسلم لیگ (ن) کو صدارتی انتخاب میں سادہ اکثریت کیلئے اپنی جماعت کے علاوہ مزید 73 ووٹ درکار ہونگے۔ 706 کے الیکٹورل کالج میں مسلم لیگ (ن) کے مجموعی ووٹ 280 ہیں، پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد 119، تحریک انصاف 60، ایم کیو ایم 49، جمعیت علماءاسلام (ف) کے 34 ووٹ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 18، نیشنل پارٹی کے 12، مسلم لیگ (ق) کے ووٹوں کی تعداد 15ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے 354 ووٹ درکار ہیں تاہم اسکے پاس قومی اسمبلی میں 183، سینٹ میں 16، بلوچستان اسمبلی میں 17، پنجاب اسمبلی میں 53، خیبر پی کے اسمبلی میں 9 اور سندھ اسمبلی میں 2 ووٹ ہیں، اس طرح اس کے اپنے کل ووٹوں کی تعداد 280 بنتی ہے۔ پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے ووٹوں کی تعداد 119 ہے، قومی اسمبلی میں 41، سینٹ 39، سندھ اسمبلی میں 36، خیبر پی کے میں 2 اور پنجاب اسمبلی میں ایک ووٹ ہے۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی 30، خیبر پی کے میں 23، پنجاب اسمبلی میں 5 اور سندھ اسمبلی میں تقریباً 2 ووٹ ہیں، اس کے ووٹوں کی تعداد 60 ہے۔ ایم کیو ایم 49 ووٹوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت ہے۔