جرمِ ضعیفی

Jul 24, 2014

پرویز احمد ہاشمی …

 اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر نہتے معصوم ، ضعیف اور ناتواں اہل فلسطین پر وحشت اور بربریت کی انتہا کر دی ہے ۔ پھولوں جیسے معصوم بچے ، خواتین اور ضعیف افراد تک اسکی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے۔ حالیہ دنوںمیں اب تک سینکڑوں فلسطینی اسرائیل کی بمباری کا شکار بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم حسب سابق خاموش تماشائی کا مجرمانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ معدودے چند ممالک اور انکے سر براہان نہایت ہلکی پھلکی اور بے ضرر سی ’’ مذمت‘‘ کر کے اپنے ’’ فرائض‘‘ سے سبکدوش ہو چکے ہیں جہاں تک تعلق ہے اسلامی ممالک اور مسلم امہ کا ایک ضعیف اور ناتوانی کی کیفیت ان پر چھائی ہوئی ہے۔ ان کا رویہ اہل فلسطین کے لئے ظالمانہ حد تک سرد مہدی لئے ہوئے ہے ۔حقیقتاً اس وقت کرہ ارض پر ’’مسلم امہ‘‘ نام کی عملاً کوئی چیز موجود نہیں ، اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس کا کوئی تصوراتی تاثر اپنا وجود رکھتا بھی ہے تو بھی اس پر ہمہ وقت ایک ضعف ،توانائی بے بسی اور مجبوری کی سی حالت طاری رہتی ہے اور یوں اقوام عالم میں اسکی حیثیت محض عضو معطل کی سی رہ جاتی ہے جبکہ ہم اس حوالے سے خوش فہمیوں میں مبتلا رہنا چاہئیں تو اس پر کوئی پابندی نہیں کہ سحر انگیز خواب اور انکی خود وضع کر دہ تعبیروں میں جکڑے ہوئے لوگ آج بھی تعداد میں کم نہیں پائے جاتے۔ مسلم امہ اور اسکے آدرشوں کی وحدانیت کا ’’ درس‘‘ دیتے والے لیڈر بھٹو اور بعدازاں اس امر کے لئے عملاً کوشاں شاہ فیصل اور قذافی کی بتدریج جسطرح راستے سے ٹھایا گیا، وہ الگ موضوع ہے۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے جمال الدین افغانی کی فکر کو جس جس مسلم رہنما نے آگے بڑھانے کی سعی کی اسے انتہائی بے دردی اور ظالمانہ انداز سے موت کا سامنا کرنا پڑا اور تو اور ہمارے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے بھی جب ’’ دیگر معاملات‘‘ سے فراغت پا کر اس ’’جانب‘‘ توجہ مبذول کی تو انہیں بھی انتہائی پر اسرار طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ جو اپنی جگہ آج تک ایک راز ہے۔ راز تو لیاقت علی خان کا قتل بھی ہے جو ھنوز حل طلب مسئلہ اور جواب طلب سوال ہے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل تو ابھی چند برس ادھر کی بات ہے، ہم تو اسکا سراغ لگانے سے بھی قاصر رہے۔ اس طرح کی ’’ گھمبیر‘‘ سازشیں زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور مسلمان ملکوں ہی میں ہوتی ہیں اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ مسلمان نسبتاً جلد غداری ، سازش بازی، آلہ کاری اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر ’’ آمادہ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ مسلمان ممالک کا اجمالی جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو یہاں خاندانی بادشاہتیں رائج ہیں یا پھر ’’ جمہوری‘‘ قسم کی فسطائیت جو اپنی ’’بقائ‘‘ کے لئے ہاتھ پائو مار رہی ہیں مگر ’’ نوشتہ دیوار‘‘ عینک بردار حضرات کو بھی صاف نظر آ رہا ہے۔
 آج یہ اہل فلسطین سے بے خبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو کل کو ان کے اپنے ’’ انجام‘‘ کے وقت ان سے بے خبری برتی جائے گی ، مانا کہ فلسطین تو بے وسیلہ اور نہتے افراد ہیں لیکن ان تمام مسلمان ملکوں کے وسائل اور طاقت کو مرتکز کیا جائے تو یہ طاقت وسائل سے مالا مال اور ناقابل شکست متصور ہوں گے۔ مگر صد حیف یہ تمام سلمان ممالک نہ تو خود ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے وسائل سے مسلم امہ کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ تعلیم اور ترقی سے صرف نظر کرتے ہوئے وہ صرف اپنی بادشاہتیں اور مورشیت کو قائم و دائم رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ’’ اسے فلسطین ،کشمیر، افغانستان عراق اور شام میں ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات اسرائیل جیسے انتہای مختصر سے ملک نے اپنے سے کئی گنا بڑے مسلم ملکوں کو’’ آگے‘‘ لگا رکھا ہے تو اسکی بنیادی وجہ اسرائیلی قوم کا اتحاد اور اعتماد ہے جو اسے اپنے سے بڑے ’’ دشمن‘‘ پر ٹوٹ پڑنے پر آمادہ رکھتا ہے۔
 ہم برس ہا برس سے اہل فلسطین اہل کشمیر اور اہل اسلام کے لئے صرف ’’ دعائوں‘‘ ہی پر اکتفا کر رہے ہیں جبکہ یہ وقت ’’ دوائوں‘‘ کا ہے یا پھر شاید سزائوں کا ہے۔
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا آخر میں ایک جملہ معترضہ کہ کیا ان مظلوم مسلمانوں کی آواز میں حافظ سعید کے علاوہ کوئی اور بھی اپنی آواز شامل کر سکتا ہے؟

مزیدخبریں