پشاور (نیشن رپورٹ) شمالی وزیرستان میں آپریشن کے باعث تحریک طالبان کا مرکز اب مہمند ایجنسی منتقل ہوگیا ہے اور خان سید سجناں کے بعد مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان کے کمانڈر عمر خالد خراسانی ہی تحریک کے تمام معاملات کو چلا رہے ہیں اور شمالی وزیرستان سے ہجرت کرکے آنے والے دہشت گردوں کو پناہ بھی دے رہے ہیں۔ ذرائع نے نیشن کو بتایا ہے کہ مولوی فضل اللہ کی غیر موجودگی میں عملی طور پر عمر خالد خراسانی ہی تحریک کے معاملات کو چلا رہے ہیں۔ یہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو بھی پناہ فراہم کرتے ہیں۔ مہمند ایجنسی میں طالبان کے ایک سینئر رکن کے مطابق بھی عدنان رشید کی گرفتاری کے بعد صرف عمر خالد ہی واحد طالبان رہنما ہیں جو پوری طرح فعال نظر آرہے ہیں۔ اس کی طرف سے پالیسی بیانات جاری کئے جارہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور خان سید سجناں اور ولی الرحمن کے بعد عمر خالد طالبان کے سب سے اہم کمانڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ تحریک کے سربراہ تو فضل اللہ ہی ہیں تاہم اسے پاکستان میں عمر خالد ہی چلا رہے ہیں۔ عمر خالد خراسانی کا اصل نام عبدالولی ہے جو جولائی 1980 کو مہمند ایجنسی کی تحصیل صافی کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ اس کے والد ایک مذہبی رہنما تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد عمر خالد کراچی چلے گئے تھے۔ انہوں نے پشتو اور اردو کے اخباروں میں بھی کام کیا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی خاصے متحرک ہیں۔ عمر خالد شاعری بھی کرتے ہیں۔ نا قدین کا کہنا ہے کہ عمر خالد خراسانی اگر نہ ہو تو تحریک طالبان اپنا کیس کسی طرح بھی میڈیا میں پیش نہیں کرسکتی۔ مختصراً عمر خالد نے تحریک طالبان کو موجودہ حالات میں سنبھال رکھا ہے۔