شہر آفاق ادیب، شاعر، افسانہ نگار اور صحافی جناب احمد ندیم قاسمی کی گیارہویں برسی گزشتہ دنوں عقیدت و احترام سے منائی گئی ہے جس سے میری کچھ یادیں بھی وابستہ ہیں جو میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
1963ءکے موسم گرما کے آغاز کی بات ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لینے سے قبل بی اے کے رزلٹ کا انتظار تھا، ان دنوں کرشن چندر، منشی پریم چند، عصمت چغتائی، انتظار حسین، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، اعظم کریوی، احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، واجدہ تبسم اور ممتاز مفتی کے بیسیوں افسانے پڑھ پڑھ کر شوق چرایا کہ میں بھی افسانے لکھنے کی کوشش کروں۔ افسانوی مجموعوں کے مطالعے کے ذریعے اس صنف ادب کے بنیادی اجزاءسے شناسائی تو ہوچکی تھی۔ ویسے برطانوی اور روسی افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا بھی مطالعہ کر کے اتنا تو علم ہو گیا کہ کامیاب مختصر افسانہ وہی ہے کہ کہانی بیان کر کے آخر میں اسے اچانک ایسا نازک موڑ دیا جائے کہ قاری حیران اور کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائے۔
بہر حال بات ہو رہی تھی افسانہ خود لکھنے کی۔ دیہی معاشرت سے متعلق کہانی کا ایک پلاٹ سوجھا اور اس کا تانا بانا سامنے رکھ کر ”پیپل تلے“ کے زیر عنوان ایک افسانہ سا لکھ ڈالا۔ والد صاحب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کو مسودہ دکھایا تو کہنے لگے کہ ”احمد ندیم قاسمی صاحب تو تمہارے دادا مرحوم مولانا عبدالمجید سالک کو اپنا روحانی باپ اور استاد تسلیم کرتے ہیں۔ میں رقعہ لکھ کر انکے پاس بھیجتا ہوں، یقینا خاندانی مراسم کی وجہ سے نہ صرف مسودے کی اصلاح بڑی محبت سے کرینگے بلکہ حوصلہ افزائی بھی فرمائینگے۔
والد صاحب کا رقعہ مع افسانے کا مسودہ، لےکر ایف سی کالج سے نکلا اور سیدھا نسبت روڈ پر دیال سنگھ لائبریری کے ساتھ والی گلی میں قاسمی صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ رقعہ پڑھ کر انتہائی شفقت سے ملے اور سادہ سی بیٹھک میں لے گئے۔ افسانے پر سرسری نظر دوڑا کر کہنے لگے کہ پہلی کوشش کے لحاظ سے تو ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آئندہ افسانہ لکھئے تو دیہات کے ماحول کی بجائے اپنے گھریلو اور آس پاس کے ماحول اور معاشرت کے حوالے سے پلاٹ سوچ کر لکھئے گا۔ موصوف نے میرے مسودے میں بیٹھے بیٹھے ہی کہیں کہیں معمولی تبدیلیاں کیں اور فرمایا کہ اب آپ اسے کسی بھی رسالے میں شائع کراسکتے ہیں۔ والد صاحب کے مشورے پر ہفت روزہ ”چٹان“ گیا جہاں افسانہ مسکین علی حجازی صاحب کے حوالے کیا جو بعدازاں ایم اے جرنلزم میں والد مرحوم کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد ترقی کر کے شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی میں انکے جانشین (سربراہ) بھی بنے۔
پہلا افسانہ شائع ہونے کے بعد ہمت بڑھی اور دوسرا افسانہ احمد ندیم قاسمی صاحب کے مشورے کے مطابق اپنے آس پاس کے سماجی ماحول اور بودو باش کو سامنے رکھ کر لکھا پلاٹ ذہن میں لایا اور افسانہ لکھ کر انکے پاس پھر حاضر ہوا۔ انہوں نے اسے پہلے سے بہتر قرار دیا اور ساتھ ہی مشورہ دیا کہ بعض نئے ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں خصوصاً پاکستان سے نوید انجم اور بھارت سے وجد تبسم اور جیلانی بانو کی کہانیوں کا مطالعہ بھی کیجئے۔ انکی رائے تھی کہ آنیوالے دور میں ان قلم کاروں کا چرچا ہوگا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ فرمانے لگے جب بھی افسانہ لکھنے میں اصلاح کی ضرورت ہو تو بلا جھجک میرے ہاں چلے آﺅ، اگر گھر نہ ملوں تو رائل پارک میں موجد آرٹسٹ کے دفتر چلے آنا، وہاں میں خاصا وقت گزارتا ہوں۔ ”کنگن“ کے زیر عنوان افسانہ لے کر میں ریڈیو پاکستان لاہور کے یونیورسٹی پروگرام کے انچارج کو دے آیا جنہوں نے وہیں بیٹھے اسے نشر کرنے کیلئے Approve کرلیا اور پروگرام کی تاریخ اور ٹائم دے دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دنوں ریڈیو سٹیشن شملہ پہاڑی کے قریب گورنر ہاﺅس کے عقبی دروازے والی سڑک پر سر فضل حسین مرحوم کی کوٹھی میں واقع تھا جبکہ پہاڑی کے دوسری جانب ایمپرس روڈ پر اس کی نئی وسیع و عریض عمارت کی تعمیر جاری تھی جہاں ریڈیو سٹیشن آج بھی واقع ہے۔ پرانی عمارت میں قائم سٹوڈیو میں ان دنوں ایڈوانس ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہیں تھی۔ لہٰذایونیورسٹی پروگرام میں میں نے اپنا افسانہ ”کنگن“ Live ہی نشر کیا۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ دو چار ملاقاتیں، میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگرچہ ان ملاقاتوں سے چار سال قبل یعنی 1959ءمیں جب دادا مرحوم مولانا عبدالمجید سالک حیات تھے۔ تو ان دنوں قاسمی صاحب کی ہمارے مسلم ٹاﺅن لاہور کے غریب خانے میں آمد بہت رہتی تھی۔ خاص طور پر دادا جان کی زندگی کے آخری سال یعنی علالت کے ایام میں۔ جہاں تک قاسمی صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا تعلق ہے تو انکے بارے میں انکی وفات کے بعد تمام اخبارات میں بے شمار مضامین شائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن بہت کم مضامین میں اس بات کا تذکرہے کہ لاہور آباد ہونے پر انہیں کس شخصیت کی شاگردی کا موقع ملا تاہم چند ایک نے ضرور ذکر کیا کہ قاسمی صاحب خود اپنے منہ سے کہا کر تے اور تحریروں اور کالموں میں بھی لکھا کہ ”لاہور آکر اگر میرے کوئی استاد تھے تو وہ مولانا عبدالمجید سالک ہی تھے“ اور انہی کی سفارش پر غالباً 1953ءمیں مولانا چراغ حسن حسرت کے بعد روزنامہ ”امروز“ کی ایڈیٹر شپ پر وہ فائز ہوئے تاآنکہ ایوب خاں کے مارشل لاءکے نفاذ پر انہو ں نے خود ہی یہ عہدہ چھوڑ دیا۔