کشمیری مسلمانوں کے خونِ ناحق کی پکار

ہندو اپنے اندھے تعصب اور انسانیت سوزی اور سنگدلی میں کہاں تک جا سکتا ہے؟ اس کی زندہ مثال اور نمونہ آج کشمیر جنت نظیر میں ظلم و درندگی اور انسانیت سوزی میں موجود ہے، جہاں بے گناہ اور ناحق خون مسلم دنیائے انسانیت، خصوصاً اقوام متحدہ کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ظلم کا پنجہ توڑو ورنہ مظلوم کے خون میں ڈوب جائو گے! بلکہ رام راج بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں، دلتوں اور عیسائیوں پر خون خوار ہندو اکثریت کی سرکاری مشینری کی درندگی اس حد کو بھی پار کر چکی ہے جس سے محمد علی جناح نے ہندو اکثریت کی درندگی سے دنیا کو آگاہ کیا تھا، اگر آج مودی رام گروہ کو کشمیر اور بھارت میں نہ روکا گیا تو دنیائے انسانیت چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر کے انسانیت سوز مظالم کو بھی بھول جائے گی۔
لیکن آفرین ہے کشمیر کے مجاہدین آزادی کے کہ آج برف سے آگ میں دھل کر برفانی آگ بن چکے ہیں اور دس لاکھ سے زائد ہندو فوج بھی اس برفانی آگ کے سامنے بے بس ہوچکی ہے اور اسے بھسم کرکے سمندر میں پھینکنے والی ہے مگر ہم ہیں کہ آپس کی جنگ سیاسی لیڈروں کو کرپشن میں اندھا کرچکی ہے اور مذہبی پیشوا ایک دوسرے پر فتوئوں کی توپیں تانے ہوئے ہیں اور غریب عوام اسی الجھن میں کسی قائداعظم کے منتظر ہیں جس طرح 1947ء میں محمد علی جناح کے منتظر تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ میاں نواز شریف، عمران خان اور دوسرے محترم سیاسی لیڈر اور مذہبی پیشوا وقتی طور پر ہی سہی سب کچھ بھول کر اس ایٹمی پاکستان کے تحفظ کے لئے ’’قائداعظم‘‘ بن جائیں۔ اندرونی خطرات کو کچل دیں اور امنڈتے ہوئے بیرونی خطرات کو آندھی بن کر اڑا دیں اور سیلاب یا سونامی بن کر بہا لے جائیں! پھر یہ غریب عوام بھی ان کے ساتھ ہوں گے اور پاک سرزمین کی متام نعمتیں بھی سب ان کے لئے وقف ہوں گی۔
یہ وقت حکومت کو گرانے یا اپوزیشن کو دبانے یا کچلنے کے لئے نہیں ہے، وزیراعظم بسم اللہ کر کے آگے بڑھیں اور عمران خان سمیت اپوزیشن کے تمام لیڈروں کو گلے سے لگا لیں اور عمران خان سمیت اپوزیشن کے تمام لیڈر بھی یہی سمجھیں کہ وزیراعظم کی کرسی پر سب بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ ایٹمی پیارا پاکستان داخلی عدم استحکام سے بچ جائے اور بیرونی خطرات سے محفوظ ہوجائے، اللہ کے فضل و کرم سے!
اپوزیشن کے تلخ پہلوان پہلے دھاندلی کے الزامات اور دھرنوں کی آفات سے میاں نواز شریف کو کسی نہ کسی پسندیدہ امپائر کی انگلی اٹھوا کر گرانے میں لگے رہے مگر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہ کرسکے اور اب پانامہ لیکس کی موہوم پھسلاہٹ ان کے ہاتھ آگئی ہے، اس کے ذریعے وہ میاں صاحب کو پھسلا کر پاکستان کی ’’خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ مسٹر مودی رام، انکل سام اور عالمی صہونیت کا ٹھیکیدار اسرائیلی نیتن یاہو پاک چین دوستی سے یرک رہے ہیں اور اس سے فارغ ہونا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے انکل سام کے فن سے ’’مودی رام‘‘ کو پاکستان کے ایٹم بم سے بھی محفوظ کرکے پاکستان کی بگ ڈور بھی ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ’’مودی رام‘‘ کے ہاتھ میں دے دیں۔ مگر یہ سب لوگ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے باہمی اعتماد سے بھی خار کھاتے ہیں جو چین کی دوستی کو بھی مضبوط سے مضبوط کرکے اس خطے کی اقتصادی و سیاسی قوت کو پاک چین دوستی میں دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ قوت اللہ کے فضل و کرم سے حقیقت بن گئی تو نہ صرف پاکستان ناقابل شکست قوت بن جائے گا بلکہ نواز شریف کو ان نازک اور خطرناک حالات میں دھکا دینے والے آگے چل کر بھی دھرنیات میں بھٹک کر سڑکوں پرہی نظر آئیں گے۔
جو وڈیرا، چھوٹا یا کرسی پسند کچھ لے مرنے کی فکر میں ہے، نواز شریف کو دھمکی ہی نہیں بلکہ دھماکے سے دھمکاتا ہے، میرے لئے خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب صبر و تحمل سے چپ ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ ستر سالوں میں میں نے پاکستان کا ایسا کوئی صابر و شاکر وزیراعظم نہیں دیکھا حتیٰ کہ فیڈر بردار لیڈر کی بے نقط دھمکیاں بھی برداشت کئے جاتے ہیں۔
کشمیر کا صحیح احساس دلانے کے لئے میری تجویز ہے کہ وزیراعظم پاکستان یہ اعلان فرما دیں کہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر اقوام متحدہ کے ستمبر والے اجلاس کے دوران میں وزیراعظم کے ساتھ اقوام متحدہ کے دروازہ پر ہوگا، ننگے پائوں، ننگے سر، گلے پر کشمیر کا جھنڈا لئے کم سے کم دس منٹ کے لئے وہاں پر کھڑے ہوجائیں گے اور وزیراعظم کی تقریر سنیں گے جس میں وہ فرمائیں گے کہ ’’اے دنیا بھر کے نمائندو! ستر سال پہلے نہرو کی شکایت پر سری نگر کا ہوائی اڈا تمہاری سلامتی کونسل کی تجویز سے کشمیری مجاہدین کے قبضہ سے لے کر خالی قرار دے دیا گیا تھا اور پنڈت نہرو کی تجویز کے مطابق رائے شماری کروانے کا فیصلہ اور وعدہ کیا گیا تھا! آج پھر کشمیری لہو لہو جسموں کے ساتھ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے کیونکہ کشمیری ہم ہیں اپنا وعدہ پورا کرو اور برحق فیصلہ دو اور دنیا کو ایٹمی جہنم سے بچالو‘‘!

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...