”بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے“

کِس بات کا استحصال؟ یہ ”استحصال“ کیا ہوتا ہے؟ کِدھر سے نئے نئے الفاظ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کہاں سے پڑھ لیا۔ مجھ پر گرمی اظہار کیوں؟ پوری عوام نے پڑھا۔ سُنا ہے۔ برداشت کا درس دینے والے ایک لفظ پوچھنے پر برہم۔ ہم ایسی ”اشرافیہ“ کے مسلط ہونے کے صحیح حقدار ہیں۔
اچھا رام کتھا نہ بنانے لگو۔ یہ لفظ متنوع المعانی ہے۔ کِس طرز۔ کِس کھاتہ کا جواب درکار ہے۔ جو آج کل چل رہا ہے اُس کے پس منظر میں آسان الفاظ میں سمجھا دیں۔
”مُلکی و غیر ملکی ٹریل“ میں جائے بغیر سیدے سبھاو¾ پیرائے میں سُنو۔ یہ بیچ راہ میں ”ٹریل“ کہاں سے آ دھمکا؟ سارا تنازعہ اِس بات پر ہے۔ سیدھی راہ پر چلنے والوں کو مشرق۔ مغرب میں پناہ نہیں مانگنا پڑتی۔ اصل بات پر پلٹتے ہیں۔ جب جھوٹ کی تہہ اُکھڑنا شروع ہو جائے۔ مکر۔ دھوکہ دہی کی پرتیں ڈھیلی پڑنا شروع ہو جائیں۔ حقائق آشکار ہونے لگیں تو سمجھو ”مرتکب“ اِس سارے عمل کو ”استحصال“ سمجھتا ہے۔
اِس کا مطلب۔ ”24 کروڑ“ کے ساتھ لاچاری‘ محرومی‘ دُکھ‘ بے بسی کی کتنی ہی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔ کوئی پرواہ نہیں۔ کِسی بڑے گھر میں تپش نہیں محسوس نہیں ہوتی۔ ”72 سالوں“ کے بعد ”ایک کروڑ“ (وہ بھی برسوں کی ریاضت کے بعد) کے ”سفید کُرتے“ پر پانی کی چند چھینٹیں کیا پڑیں۔ ہا ہا مچ گئی۔ کُھلے عام کہہ دیا۔ ”احتساب“ کو کوئی نہیں مانے گا۔ جو خود کا کہا۔ سُنا بُھول جاتے ہوں۔ واقعی وہ کیا مانیں گے۔ ہر پل بیانات‘ تحریر‘ قول‘ اقرار ادل بدل رہے ہیں۔ اپنے فرامین پر استقامت نہیں۔
کچھ دن قبل پڑھے شعر کی تعبیر۔ تشریح صاف صاف صاف دِکھائی دینے لگی ہے۔ سب ایک طرف ”میں“ اکیلی دوسری طرف۔ ہمارا تو مشورہ تھا کہ چونکہ لمبا عمل ہے۔ سو لڑائی۔ تنازعات میں پھنسنے کی بجائے سکون سے کام کرتے رہیں۔ ”قانون“ کو اپنا فرض نبھانے دیں۔ ویسے بھی معینہ مدت میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں۔ مگر موڈ شاید ”سیاسی شہادت“ کا معلوم ہوتا ہے۔ آثار بھی اُسی طرف کے نظر آتے ہیں۔
سچ بول دیں۔ جس ملک میں پلے بڑھے۔ جس سے کمایا۔ کھایا۔ ماننے میں کیا امر مانع ہے؟ اُلٹا دھمکا یا کہ ”آج میرا کل دوسروں کا احتساب“۔ سب کا اور شفاف احتساب۔ پوری قوم اِس پر متفق‘ یکسو ہے۔ بلاتفریق جو بھی ملوث ہے صرف مالیاتی غبن نہیں ہر وہ مُجرم جس نے قوم۔ ملک کو نقصان پہنچایا۔ ملوث ذمہ داران کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔
ویسے خبر کیا ہے؟ حالات کِس رُخ جائیں گے۔ حتمی طور پر نتیجہ نکالنا ناممکن ہے۔ حتیٰ کہ حالات و واقعات سے اخذ کرنا۔ ممکن حد تک درست تجزیہ کھنگالنا بھی آسان نہیں۔ پورا معاملہ روزِ اول سے ”ملکیت“ کی شناخت کے گرد گھوم رہا ہے۔
کیا مطلب؟ سارے ثبوت۔ شواہد۔ تو ”ڈبوں“ میں بھر کر دے دیئے اب کِس بات۔ خفیہ راز کی کھوج ہے۔ اِس سے بھی زیادہ ڈبے پہلے سے موجود تھے اور ہیں۔ تو پھر جھگڑا کاہے کا؟ بس ”کُھل جا سم سم“ والا معاملہ ہے۔ یعنی؟؟۔ اب معصوم مت بنو۔ کئی دستاویزات ہی جعلی قرار پا جائیں تو؟؟
عزت اُن کی زیادہ محترم ہے جنہوں نے ”جے آئی ٹی“ تشکیل دی۔ وہ بھی عزت دار تھے جنہوں نے حکم بجا لانے میں کوتاہی نہیں کی۔ نہ بِکے نہ جُھکے۔ صبر کا امتحان تو کِسی کو بھی نہیں لینا چاہئے۔ پر الزام تو ابھی تک ثابت نہیں ہوئے۔ کیوں اتنا واویلا۔ استعفیٰ کے نعرے گونج اُٹھے۔ جبکہ وہ تو اعلان کر چُکے تھے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا قبول کریں گے۔ محاذ آرائی کا ارادہ نہیں۔ بالکل ”حکومتی موقف“ سچا ہے بس الزامات۔ طعنوں سے لتھڑے بیان آگ برسانے میں سورج کو مات دے گئے۔
آخر جتنی بِھد اڑائی گئی۔ پوری فیملی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔ وہ جواب میں ”تسبیح“ ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ جاتے یا ”جائے نماز“ بچھا کر ”100 رکعت نوافل شکرانہ“ ادا کرتے۔ شکر کرنا تو اب زیادہ بنتا ہے۔ کِس چیز کا کہ پھنس چُکے ہیں۔ نہیں۔ اِس بات کا کہ پاکستان کے شہری ہیں۔ جِن مُلکوں میں اِن کی دولت اور آل اولاد رہتی ہیں۔ وہاں تو ہلکا سا جھوٹ بولنے پر پوری حکومت رُخصت ہو گئی اور جاتی ہیں۔ یہاں تو ”ما¶نٹ ایورسٹ“ کے حجم سے صرف دوگنا الزام نہیں بلکہ ثبوت ایستادہ ہیں۔ پر تسلیم کرنے سے انکاری۔
کیا بہترین موقع نہیں کہ ملکیت جب ہے نہیں تو سارے اثاثے بحق ریاست ضبط کر لیں۔ دیکھیں کیا نقشہ "Paint" ہوتا ہے۔ سبھی کا مطالبہ ہے اور متفقہ ہے کہ ”نااہل“ ہونا چاہئے۔ عوام کی خواہش بھی ہے کہ ایسا تا حیات کر کے معاملہ بے شک ”نیب“ کو بھیج دیں۔
تاکہ دُھل دُھلا کر پھر مسلط ہونے کو آ جائیں۔ شفاف۔ میرٹ کے الفظ کی حُرمت پر چلے تو بہت سارے مزید بھی فارغ ہوں گے۔ ہونے چاہئیں۔ جب قوم چاہتی ہے تو خواہش کا احترام ہونا چاہئے۔ آخر ”ووٹرز“ ہیں۔ نا ووٹ دیں تو کوئی کتنا ہی زور لگا لے۔ کوئی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔ کتنے ”ڈبے“ جعلی ووٹوں سے بھر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن