قارئین ! تین دن بعد امام صحافت و پاکستانیت محترم مجید نظامی کی چوتھی برسی ہے خود شاید ان جیسی امر ہستیوں کو دنیا سے کوچ کر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگرقوم یتیم ہوگئی ہے۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے بچشم تر گم سم بیٹھی ہوں سامنے قلم اور کالم کا کاغذ رکھا ہے۔ مجید نظامی صاحب جیسی امر ہستی کے بارے میں میرا قلم رحلت کا لفظ لکھنے سے انکاری ہے کالم کہتا ہے اگر اپنی نگارش کی تمام تر طاقتوں کو جمع کرکے یہ لفظ لکھ بھی لو تو کیا خود کو خود ہی اپنے قلم سے یہ لکھ کر یقین دلادوں گی کہ تمہارا بلکہ پوری قوم کاشفیق ترین ہمدرد ترین باپ اب اس دنیا میں نہیں رہا ؟ ایک ایسا ہمدرد اور شفیق باپ جس کی رحلت پر پوری یتیم قوم صدیوں تک روتی رہے گی سکون پھر بھی نصیب نہیں ہوگا تاہم یہ سوچ کر پرسکون ہوا جا سکتا ہے کہ اگر رب کریم نے انہیں شب قدر کی شب اپنے پاس بلایاہے تو انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرنے کا فیصلہ بھی یقینا بہت پہلے ہی سے کر چکا ہوگا اور ہماری دانست میں یہ تمام تر ثمران کو انسانیت اور پاکستانیت کے ساتھ اندھا عشق کرنے کے عمل عالیہ کے اجر میں عطا کیاگیا ہے ایسی معزز ہستی ، عزیز اور کھری ہستی ، شریف النفس ہستی بلکہ عاشق صفت ہستی کے بارے میں کیا لکھا جائے ؟ پاکستان سے عشق ، اسکے ذرے ذرے سے عشق، قائداعظم سے عشق، علامہ اقبال سے عشق ، ہر پاکستانی سے عشق یہاں تک کہ پاکستانیت سے عشق کی وہ انتہا کہ رحلت بھی ستائیسویں رمضان کو پاکستان کا قیام عمل میں آنیوالے دن ہی فرمائی یہ انکی پاکستانیوں کےلئے روحانی فتح ہے گویا وہ وطن کی وفادار ہستی وفات کے بعد بھی اپنی تحفظ پاکستان کی قسم کی لاج نبھانے اللہ تعالیٰ کے پاس یوم پاکستان والے دی ہی گئی ہے تاکہ اس اسے دائمی دائم و قائم رکھنے کےلئے ایسی ضمانت حاصل کر لے کہ کوئی دشمن قیامت تک اس کی طرف میلی نظر سے نہ دیکھ سکے اللہ اللہ۔۔ اپنے اعلیٰ مقاصد کےلئے مرمٹنے والی ایسی ہستیاں اب کب دوبارہ پیدا ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ہمارا ہر بن موبخشش کیلئے ان کیلئے دعاگو ہے۔ بہر حال انتہائی دکھی دل کے ساتھ قارئین آج اپنے ساتھ انکی غیر معمولی شفقت، بے پناہ خلوص کی چند باتیں لکھ کر دل پر رکھا ہوا دکھ کا ہمالیہ ہٹانا چاہتی ہوں۔انکے ساتھ میری محض چھ ملاقاتیں ہوئیں وجہ یہ کہ ابتداءمیں ملک سے باہر تھی تین ملاقاتوں کا اعزاز مجھے اپنے گھر پر ہی نصیب وہا جبکہ انکے ساتھ روحانی رشتہ مسلسل استوار رہا ، خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کے دوران میں انکے نوائے وقت کے ہفت روز ہ”قندیل کی “ ”نو عمر ترین“ بلکہ تاریخ صحافت کی نو عمر ترین ایڈیٹر تھی اس میں ”فکر پریشاں“ کے عنوان سے مستقل پورا صفحہ لکھتی تھی (حصہ خواتین کی ایڈیٹر بھی تھی ) اب وقت کے ساتھ ساتھ وہ ”فکر پریشاں “ فکر جہاں کے نام کے کالم میں تبدیل ہو چکا ہے جونوائے وقت میں چھپتا ہے ۔ بہر حال ایک بار لاہور سے مجھے بطور خاص فون کیا کہ جانتا ہوں آپ تقریبات میں زیادہ نہیں نکلتیں تاہم آج اسلام آباد کی تقریب میں ضرور آئیں میں موجود ہوں گا میں نے حکم کی تعمیل کی وہاں گئی تو بے حد اپنائیت سے ملے کچھ دیر میری روحانی تحریروں کے حوالے سے بات کرتے رہے افسوس میں فنکشن میں آخر تک موجود نہ رہ سکی معذرت کرکے جلد واپس گھر آگئی مگر اس وقت شدید حیرت بھری خوشی ہوئی کوئی آدھے گھنٹے بعد مجھے فون کیا فرمایا میں تھوڑی دیر تک آپ کے پاس آ رہا ہوں ملاقات ادھوری رہی ہے بہرحال آئے تو کافی دیر میرے پاس بیٹھے رہے (انکے ساتھ نوائے وقت کے بزنس مینجر غالباً حمید ہاشمی بھی تھے ) یہ لاہور میں بہت عرصہ پہلے کی پہلی ملاقات کے بعد ہماری دوسری ملاقات تھی بلکہ یہ اپنی نوعیت کی واحد غیر معمولی ملاقات تھی کہ تین گھنٹوں کے اندر ہماری بیک وقت دو ملاقاتیں ایک ساتھ ہوئیں۔
دوسری ملاقات بھی میرے گھر پر میرے بڑے بھائی کی وفات پر تعزیت کے حوالے سے ہوئی لاہور سے بطور خاص تشریف لائے تھے ۔ ائیر پورٹ روانہ ہونے سے پہلے مجھے فون کر دیا تھا اور اب میرے گھر پر تیسری اہم ملاقات کا تذکرہ ، میرے روحانی اقوال و افکان پر مبنی کتاب ”تیسری آنکھ سے “ پڑھی تو بے حد متاثر ہوئے فوراً فون کیا اور فرمایا اس کتاب کے حوالے سے ملاقات کرنے جلد راولپنڈی آﺅں گا تین دن بعد ہی تشریف لے آئے یہ ہماری روحانی حوالے سے گہری باتوں پر مشتمل بھرپور ملاقات تھی عشق محمد کے انوکھے جذبے سے سرشار ان کا چہرہ دیر تک تمتاتا رہا حب رسول کے حوالے سے میرے اقوال دہراتے رہے۔ سوالات کرتے رہے ، آنکھیں آبگوں ہوتی رہیں بلکہ میری اس کتاب پر انہوں نے جن الفاظ میں تبصرہ لکھ کر بھیجا وہ میرے لئے ہمیشہ سرمافہ افتخار رہے گا ۔ کہاں میں درویش منش سادہ سی لکھاری اور کہاں ان کی محبت و شفقت کی یہ انتہا کہ میرے لکھے کو الہام لکھا۔ میری ایک ملاقات ان کی اسلام آباد والی رہائش گاہ پر انکی دعوت پر ہوئی اور جس میں ہمارے خاندان کی تحریک پاکستان میں خدمات اور علامہ اقبال کا ہمارے گھر لغاری ہاﺅس ڈیرہ اسماعیل خان میں تین مرتبہ تشریف لانے کا واقعہ زیر بحث آیا جسکے بعد انہوں نے فوری طور پر ہمارے بھائی صاحب کا مفصل انٹرویو نوائے وقت کے سنڈے ایڈیشن میں چھاپ دیا۔ آخری ملاقات عائشہ مسعود کی کتاب ” جب تک میں زندہ ہوں“ کی تقریب رونمائی میں ہوئی یہ اہم کتاب نظامی صاحب کے بارے میں ایک مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ الغرض انکی بے پناہ شفقت کے بارے میں کیاکیا لکھوں ؟ مجھے جب صدر پاکستان نے نوائے وقت میں قومی کالم نگارری پر فاطمہ جناح میڈل دیا آزاد کشمیر کے صدر نے انٹرنیشنل ہیومن رائیٹس آبزور کی طرف سے نوائے وقت میں شائع شدہ کالمز کے مجموعے ” آواز حق “ پر ایوارڈ دیا قائد اعظم گولڈ میڈل ملا اور قومی کالم نگارہ کا خطاب دیا گیا محب پاکستان اور مجاہدہ ملت ایوارڈز ملے تو ہر بار مبارک کا فون کیا ، بات مختصر کرتے تھے مگر خوشی کا جذبہ ضرور پہنچاتے تھے بلکہ میرا یہ اعزاز ہے کہ میرے سات عدد گولڈ میڈلز اور درجن بھر ایوارڈز پر الگ الگ فون کیے ۔ بے نظیر ” ویمن ان لیڈر شپ “ ایوارڈ ملا تو خوش ہو کر اپنی طرف سے بلکہ پورے سٹاف کی طرف سے مبارک باد دی مجھے خط لکھا اور اخبار میں خبر لگوائی۔ اور اب ان کا وہ تبصرہ بعنیہ پیش ہے جو انہوں نے میری روحانی کتاب ”تیسری آنکھ “ پر لکھ بھیجا اور فرمایا کہ آئندہ ایڈیشن میں اسے چھاپ دینا میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور وہ تبصرہ میری کتاب میں بھی شامل ہے۔
پاسبان پاکستان کی رحلت....قوم یتیم ہوگئی
Jul 24, 2018