مسلم لیگ (ن) کی راہ میں رکاوٹیں

صرف پاکستان اور اسرائیل دو ممالک ہیں جو نظریئے اور دین کے نام پر وقوع پذیر ہوئے تھے۔ پاکستان جمہوری اور عوامی سیاسی اسباب و عوامل سے وجود میں آیا جبکہ اسرائیل سازش‘ تشدد‘ استحصال‘ فلسطین پر قبضے کی پیداوار ہے۔ چند روز قبل قاتل جمہوریت پر مبنی اسرائیلی حکومت نے پارلیمان سے یہودی ریاست ہونے کا اقدام کر لیا ہے۔ یعنی اپنی تخلیق کی بنیاد بنے نظریئے کو پارلیمانی اور آئینی رنگ بھی دیدیا ہے۔ ایسی جمہوریت سے ہٹلر اور مسولینی جنم لیتے تھے۔ اب بھی جمہوریت سے صرف ٹرمپ و مودی جنم لیتے ہیں یا اسرائیلی وزیراعظم۔ لہٰذا یہ جمہوریت جو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیق اور جنگ و جدل کو اس لئے فروغ دیتی ہے کہ یہی جنگ و جدل اس کے مالی‘ عسکری‘ سیاسی وجود کی تخلیق و فروغ و بقاءکا ذریعہ ہے۔ جنگ پیدا کرنا‘ جنگ کو فروغ دینا‘ معصوم و بے گناہ انسانوں کا قتل کرنا‘ ہندو جمہوریت‘ اسرائیل کی جمہوریت اور امریکہ کی ٹرمپ جمہوریت کا نام ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام پر قاتل پیدا کرتی جمہوریت جس کو ”ووٹ کو عزت دو“ جیسے منافقانہ اور دوغلے نعروں سے نئی زندگی دی جا رہی ہے۔
پاکستان کی ضرورت ہے۔ سندھی عوامی مسائل کا یہ حل ہے نہ ہی مسلم لیگ کیلئے اقتدار کا یہ صراط مستقیم ہے۔ ویسے بھی ”ووٹ کو عزت دو“ کو نعرہ بنانے والے کردار خود ووٹ کی تقدیس حقیقی جمہوریت کے اپنی پارٹی سیاست اور حکومتی طرز فکر میں عملاً مسولینی اور ہٹلر بنے رہے ہیں۔ بطو وزیراعظم اگر وہ سچے‘ مخلص‘ مدبر لیگی اذہان و کرداروں کی مصاحبت و رفاقت کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھتے۔ ان کے قبضہ میں آئی ہوئی مسلم لیگ میں سب حلوہ کھانے والے تھے نہ کابینہ کا اجلاس نہ وزراءسے راہ و رسم‘ نہ پارلیمانی اجلاسوں کا انعقاد‘ نہ لیگی فوم نہ شعور کیلئے کوئی راستہ۔ صرف ذاتی ہمہ گیر اقتدار اعلیٰ وہ بھی اخلاص‘ صداقت‘ حقائق پر مبنی نہ تھا بلکہ شہنشاہی مزاج کا مطالبہ جس کی نفسیاتی خوراک دائمی وشامد اور مدح سرائی رہی۔ اس کا ایک انجام تو 12 اکتوبر 1999ءتھا اور دوسرا انجام سپریم کورٹ سے نااہلی اور پھر نیب عدالت کی طرف سے بیٹی سمیت اپنے لئے طویل سزائے قیدوبند ہے۔ اور اب مسلم لیگ بے چاری فکری سیاسی انتشار کی دہلیز پر اور خود اور مسلم لیگ کو آئینی ریاستی اداروں اور عدالتوں سے دائمی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عدالتوں اور اداروں کی تحقیر و تذلیل اقبال و قائد کا راستہ ہرگز نہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ کیلئے آئندہ اقتدار کا ہر راستہ دائمی طورپر بند کر دیاگیا ہے۔ مسلم لیگ اور ملک کو ذاتی کاروباری انڈسٹری بنایا گیا ہے ۔ مسلم لیگ عام اقتدار پارٹی نہیں تھی۔ نہ ہی ہے بلکہ وہ خالق پاکستان پارٹی ہے۔ اس کا وجود‘ کردار‘ بقائ‘ ریاست‘ ریاستی اداروں‘ فوج‘ عدلیہ سے تصادم نہیں موافقت اور مفاہمت اور اشتراک عمل میں مضمر ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح چین کی کمیونسٹ پارٹی اور چینی ریاستی ادارے ایک فکر‘ ایک پروگرام‘ ایک راستے کے یکساں راہی ہیں۔مسلم لیگ ن نے پاکستان میں بطورخاص وہ راستہ نہیں اپنایا جو راستہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنایا ہوا ہے۔ نوازشریف کسی بھی اعتبار سے طیب اردوان ہیں نہ ہی نیلسن منڈیلا۔ عرفان دانشوری اور مشاہد کڑاکوں سے صرف اردوان اور نیلسن منڈیلا بننے کی نقالی ہو سکتی ہے۔ حقائق اس سے متضاد سمت میں ہیں۔
25 جولائی کے انتخاب کے بعد اصل اور حقیقی مسلم لیگیوں کیلئے راستہ”نیا“ ایجاد ہو سکتا ہے۔ آج بھی مسلم لیگ ہی اقتدار کے حصول کی سب سے زیادہ جائز حقدار ہے۔ اگر شہباز مخلص اور امین و مدبر ہیں تو وہ خود آئندہ کے لئے نئی قیادت کا انتخاب کریں۔ اگر شہبازشریف نے رضاکارانہ طورپر ایسا نہ کیا تو اسی طرح ”فارورڈ بلاک“ بنے گا جیسے (ق) لیگ پنجاب اسمبلی میں ”عطا مانیکا گروپ“ بنا تھا اور اسے شہبازشریف نے اپنے اقتدار کیلئے استعمال کیا تھا۔ اب ایسا بھی متوقع مرکزی پارلیمان اور پنجاب اسمبلی کے ارکان کر سکتے ہیں کیونکہ ماضی میں یہ سب کچھ کرکے وزارت اعلیٰ حاصل کی گئی اور اسے استحکام دیا تھا۔ لیگی اٹھیں‘ جرا¿ت و دلیری سے ۔ جاگیر و دولت و نعمت کی بجائے تدبر و فراست ‘ استدلال و فکر اور شعور کو قیادت دے کر کمیونسٹ چینی پارٹی کی طرح آئینی اداروں سے رفاقت اپنائیں ورنہ مسلم لیگ کا استحقاق اقتدار دائمی طورپر محبوس و مقید رہے گا۔ مسلم لیگ کو واپس فکر اقبال اور اسلوب سیاست و اقتدار میں قائداعظم کی طرف حقیقی طورپر لوٹنا ہوگا۔ اسلام سے اعتدال پسند و صراط مستقیم جیسی پختہ وابستگی‘ علماءسے تعلق و احترام‘ اہلیت کی بنیاد پر عہدوں‘ مناصب کی تقسیم‘ اقلیتوں کے حقوق کا واضح دفاع‘ ریاستی اداروں سے مکمل مفاہمت و اشتراک عمل کے ذریعے درپیش جغرافیائی خطرات کا سدباب دو ٹوک بات ہے۔ پاکستان کو یا تو روسی پیوٹن دیں یا چینی صدر شی جن یا اردوان یا مہاتیر۔ عمران خان ممکن ہے کہ وزیراعظم نہ بن سکیں‘ ایسی حالت میں مسلم لیگی نئے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

ای پیپر دی نیشن