مسلم ہے تو مسلم لیگ”بچا“۔۔۔!

سلسلہ یہی چلا آرہا ہے،پارٹی اور حکومت کی سربراہی بیک وقت کرنا معمول کی کاروائی ہے۔قائد اعظم ؒکے بعد سے یہی صورتحال رہی صرف چودھری محمد علی نے ”بریک“دیا تھا لیکن اس کے نتیجہ میں ان کی اپنی حکومت ڈولنے لگی اور راتوں رات ”رپبلکن پارٹی“پیدا ہوگئی جس کے بعد اُنہیں ۶۵۹۱ءکا آئین دینے کے باوجود مستعفیٰ ہونا پڑا ۔قائداعظم ؒنے تو۸۴۹۱ ءمیں مسلم لیگ کی صدارت اس لیے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ بطور گورنر جنرل کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ان کی رحلت کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے ”نظریہ ضرورت “کے تحت حکومت اور پارٹی کی سربراہی کو ایک دوسرے سے نتھی کردیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا پارٹی کی بالادستی ختم اور حکومتی عہدے کی برتری قائم ہوگئی۔ حالانکہ جب قائد اعظمؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے تو 1942 ءمیں بعض صوبوں میں مسلم لیگ کے حکومتی سربراہوں نے وائسرائے ایگزیکٹیو کونسل میں شرکت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ، پارٹی نے انہیں ”اظہار وجوہ “کے نوٹسز جاری کر دئیے تھے پھرلیاقت علی خان کے بعد یوں ہوا کہ جو بھی وزیراعظم یا وزیر اعلی بنا، پارٹی کی صدارت اس کی خدمت میں پیش کر دی گئی۔ملک میں پہلے مارشل لاءکے بعد جنرل ایوب خان نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو فوجی حکمرانوں کے لئے ”نظریہ ضرورت “ اوراس کے تحت مسلم لیگ سب سے زیادہ ناپسندیدہ جماعت بن گئی کیونکہ اس کی قیادت چوں چراں نہیں کرتی، بڑی خوشدلی کے ساتھ طاقتِ وقت کی حکمرانی کو قبول کرتی اوراس کے گن گاتی۔صرف ایک دبلے پتلے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ”مرضی“ چلانے کی کوشش کی تھی تو اٹھاون بی کے ایک ہی فائر سے ان کی حکومت ٹھاہ ہو گئی۔
1985ءکی بات ہے محمد خان جونیجو ہی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ”مرحوم و مغفور“ نیشنل سنٹر لاہور کی ایک نشست میں ایک مسلم لیگی رہنما نے کہا تھا کہ ” مسلم لیگ وہ گائے ہے جس کے گلے میں کوئی بھی اپنے نام کی تختی اور رسی ڈال کر لے جا سکتا ہے،کرایہ پر دے سکتا ہے، گھر سے باہر نکال سکتا ہے، یا پھر قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کبھی کبھی وہ” بیوہ“ لگتی ہے جس پر کوئی بھی اپنی چادر ڈال کر اپنی بیوی بنا سکتا ہے اور جب جی چاہے اسے اکیلی چھوڑ کرکسی دوسری جماعت سے رجوع کر سکتا ہے۔ یہ بھی نظریہ ضرورت جیسی کوئی چیز بن گئی ہے۔“یہاں چودھری خلیق الزماں کا ذکر بہت ضروری ہے جنہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت ،جنرل ایوب کی خدمت میں صد احترام مسلم لیگ کی صدارت پیش کی تھی جو اس وقت مسلم لیگ کے دو آنے کے بھی ممبر نہیں تھے۔ایوب خان نے قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنی پارٹی کا نام کنونشن مسلم لیگ رکھ لیا اور خود اس کے صدر بن بیٹھے اور ساتھ ہی صدر مملکت بھی۔
پھر ”بیوہ“ مسلم لیگ ٹھوکریں کھاتی ہوئی میاں نواز شریف کے پا س پہنچی تو ”ن“ بن گئی۔ میاں نواز شریف کی پارٹی پالیٹکس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ”ن“ہی کی نشست پر سپیکر بننے والے ان کے اپنے الہی بخش سومرو نے کہا تھا کہ میرا ”ن“ اور ”ق“ سے کوئی تعلق نہیں ، میں صرف مسلم لیگی ہوں اور مسلم لیگ کا مستقبل اچھا نظر نہیں آرہا۔ نیشنل الائنس والے جناب غلام مصطفے جتوئی سے کسی نے پوچھ لیا کہ کیا آپ مسلم لیگ میں شامل ہونے جارہے ہیں؟ تو انہوں نے دونوں کان پکڑ لئے اور کہا ” میری توبہ“۔اقتدار میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ میں کشش اور چمک کے اثرات کمزور ہوتے رہے ۔شائد کچھ لوگوں کو تاریخ یاد رہ گئی ہو ، تو وہ بیان کر سکتے ہیں کہ ،جنرل ایوب خان نے مسلم لیگ کی صدارت قبول کر لی تھی مگر ان کااقتدارختم ہوتے ہی وہ بھی غائب ہو گئی اور مسلم لیگ والے ایک بار پھراپنے اپنے کوارٹرز میں اپنے ناموں کی تختیاں لگا کر بیٹھ گئے ۔ تب سے اب تک مسلم لیگ ، گروپ بدل بدل کر بہت سے لوگوں کو پناہ اور سہولتیں فراہم کر رہی ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔ ایک ہونے کے بعد نعرے لگائے جاتے ہیں ،کوششوں کا ذکر کیا جاتا ہے ،عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو” ایسے“ مسلم لیگیوں کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اور یہاں بھی مسلم لیگ کے ساتھ ایکس ، وائی، زیڈ کی تخصیص موجود رہتی ہے۔ مسلم لیگ سے پیار کرنے والے اب بھی بہت سے لوگ ہیںلیکن مسلم لیگ پر قبضہ گروپ نے اپنے اپنے نام سے اجارہ داری قائم کر کے ”جملہ حقوق محفوظ“ ہیں کی پالیسی اپنا رکھی ہے کیونکہ یہ پارٹی الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور اپنے الیکشن نہیں کرتی ،جو الیکشن ہوتے ہیں وہ بھی سلیکشن یاں ریفرنڈم جیسی کوئی کاروائی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی مسلم لیگ سے پیار کرنے والوں کی دعائیں قبول کرے ، حسرتیں پوری کرے ، مسلم لیگ کو” اپنی“ پناہ میں رکھے ، لیکن وقت بدلنے اور ضرورت کے تقاضوں کے پیدا ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔

ای پیپر دی نیشن