ایک مرتبہ پانی کی نایابی کی وجہ سے ساری فوج جاں بلب تھی، بڑی مشکل سے سپاہیوں نے جُرعہ آب تلاش کیا اور سکندر کو ہیلمٹ میں ڈال کر پیش کیا۔ سکندر نے پانی لانے والوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر اُسے زمین پر گراتے ہوئے بولا ”جس جرنیل کی سپاہ پیاسی ہو‘ اسے پانی پینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔“ ایک ہمارے حکمران ہیں کہ بائیس کروڑ لوگ غربت‘ افلاس اور کسمپرسی کی حالت میں ہیں‘ لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سارے قومی وسائل ان کے اللوں تللوں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
بعد از خرابی بسیار سکندر اس موت کی وادی سے تو نکل آیا‘ لیکن ملک الموت سے نہ بچ سکا۔ بابل کے مقام پر 33 سال کی عمر میں فوت ہو گیا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی جانشینی کی جنگ شروع ہو گئی۔ گریکو بیکٹرین کا سپوکن نکاٹار‘ آخر میں قرعہ نکاٹار کے نام نکلا۔ اس نے پرانے زعم میں ایک بار پھر ہندوستان پر حملہ کر دیا‘ لیکن اس مرتبہ مقابلے میں پنجاب کا پورس نہیں بلکہ چندر گپت موریہ تھا۔ اس نے نکاٹار کو ذلت آمیز شکست دی اور بلوچستان کا علاقہ ہتھیا لیا۔ حملہ آور یونانی کو اپنی بیٹی رشتہ میں دینی پڑی۔ چندر گپت خانہ ساز شراب تو پیتا ہی تھا‘ مئے افرنگ سے بھی لطف اندوز ہونے لگا۔
اشوک ،چندر گپت موریہ کا پوتا تھا۔ اسکے باپ ہندو سارا کے سوبیٹے تھے۔ جب وراثت کی جنگ چھڑی تو اس نے اپنے 99 بھائیوں کو مروا ڈالا۔ جذبہ¿ جہانگیری اسے کالنگا کی جنگ تک لے آیا۔ گو وہ فاتح رہا‘ لیکن اس میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ قیدی بنے۔ اس قدر قتل و غارت نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدھ مت اختیار کرنے کے بعد اس کے خیالات میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ پیار‘ محبت‘ ایثار‘ جذبہ ترحم‘ عفو‘ درگزر اس کی زندگی کا مطمح نظر ٹھہرا۔ انسان تو انسان اس نے جانوروں کے مارنے پر بھی پابندی لگا دی۔
بدھ مت کا شمار دنیا کے چند بڑے مذاہب میں ہوتاہے۔ مہاتما بدھ 560 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ ایک چھوٹی سی سلطنت کپل وستو کا شہزادہ۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی بجائے وہ شروع ہی سے سوچ بچار کا عادی تھا۔ جب بھی وہ کسی شخص پر ظلم ہوتے دیکھتا تو اسے اپنے وجود میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوتیں۔ 19 سال کی عمر میں جب اس کا بیٹا پیدا ہوا تو اس نے خاموشی سے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان بیوی‘ نرینہ اولاد‘ رات گھر چھوڑنے سے پہلے اس نے ایک نظر نومولود پر ڈالی۔ شفقت پدری سے مغلوب ہوکر اس نے بیٹے کو بانہوں میں اٹھانا چاہا‘ لیکن دوسرے لمحے اس جذبے پر غلبہ پا لیا۔ رات کو گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر وہ جنگلوں میں غائب ہو گیا۔ اسے سچ کی تلاش تھی۔ پے درپے واقعات نے اسے اس نتیجے پر پہنچایا کہ دنیا دکھوںکا گھر ہے۔ ظلم اور زیادتی نے انسانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اسکی وجہ مادی خواہشات ہیں۔ اسے سچ کی تلاش تھی۔ برسوں بھٹکتا رہا۔ جنگلوں میں‘ صحراﺅں میں‘ .... تن من کا ہوش نہ رہا۔ سر کے بال اور بھنویں منڈوا ڈالیں۔ گیروا لباس پہن لیا‘ جسم کو ہر قسم کی اذیت دی۔ بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھا بیٹھا خود سوکھے پتے کی طرح مرجھا گیا۔ ایک دن اس نے پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جا ٹکرایا۔ بس وہی ایک لمحہ تھا روشنی کی ایک لہر اس کے سارے وجود کو سرشار کر گئی۔ بدھ کو گیان حاصل ہو گیا تھا۔ وہ مہاتما بن گیا تھا۔ بدھ کی تعلیمات کی اساس پیار ، محبت اور ایثار پر ہے‘جو اس کے جزو لاینفک ہیں اس مذہب کے پیروکار سارے جنوب مشرقی ایشیا میں پھیل گئے ....آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ بدھ کو مندروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیروکاروں نے مہاتما کی تعلیمات کو بھلا کر تشدد کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ برما کے وحشی، مہاتمابدھ کے پیروکارہیں۔
ہندوستان پر مسلمانوں نے ہزار برس حکومت کی ہے۔ حیرانی اس لئے نہیں ہوتی کہ اتنا بڑا ملک چھوٹا نہیں دکھتا تھا۔ اس پر تو انگلستان کے مٹھی بھر مچھیروں نے بھی قبضہ کر لیا تھا۔ دراصل سارا ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ ان میں اکثر ایک دوسرے سے برسر پیکار نہیں۔ باہمی مناقشتوں، رنجشوں اور سازشوں نے بیرونی حملہ آوروں کا کام آسان بنا دیا۔ سلطان محمود غزنوی نے سترہ حملے کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی وہ آتا، لوٹ مار کر کے چلا جاتا۔ اگر مقصد بت شکنی تھا تو یہ کار خیر ایک حملے میں بھی سرانجام دیا جا سکتا تھا۔ اس قدر تردد اور تکلیف اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہندوستان کو اس وقت سونے کی چڑیا سمجھاتا تھا۔ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتاتھا 1191ءمیں تراوڑی کے میدان میں محمد غوری کو شکست ہوئی۔ پرتھوی راج چوہان غالب رہا۔ (باقی آئندہ)
تاریخ کے جھروکوں سے ! .... (۲)
Jul 24, 2018