یاد ماضی عذاب ہے یارب، حکومت پی پی پی کی تھی اور یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمی نے جب نااہل قرار دیا تو مخدوم شہاب الدین کو وزیراعظم بنایا جانا تھا، میرا ان سے ان دنوں مسلسل ٹیلیفون رابطہ تھا تاہم انکی ملنے کی دعوت آج تک موخر ہے۔ اور ایسے ہی یکایک "ایفیڈرین" کیس سامنے آگیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہم نے مانا کہ انصاف کے تقاضوں کو موقع محل دیکھنا چاہئے نہ ملزم کا اتہ پتہ۔ بس فوری فراہمی انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اور اس فوری کا مطلب "فوری" محض الیکشن سے قبل والا نہیں، سدا والا فوری ہے! لیکن ہمیں معلوم ہے 1970 تا حال پیپلزپارٹی کو اس طرح کی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لیگوں کو کبھی شک کا فائدہ ملا کبھی جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کا اور کبھی جمہوری اتحاد کا۔ 1988 سے پنجاب پیپلزپارٹی کیلئے شجر ممنوعہ رہا اور مسلم لیگ ق ، ن لیگ کیلئے ہاٹ کیک۔ حتی کہ 2008 تا 2011 لوگ سٹے آرڈر ہی پر وزارت اعلیٰ کا دورانیہ پورا کرگئے۔ جن کی مدد سے حکومت ملی کمال "ہنرمندی" سے ان کے وزراءکو چلتا کیا۔ ایک طرف بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھی لازم تھا کہ، منظور وٹو کو رکھیں یا ہٹائیں مگر وزیر اعلی پنجاب ہوگا تو جونیجو لیگ کے 17 ممبران سے ورنہ مرکز سے بھی گھر جاو¿۔ میں اکثر ایک عرض کیا کرتا ہوں پنجاب سے باہر کے لیڈران کو کھڈے لائن لگایا جاسکتا ہے اور بائیں بازو کو بھی مروڑا جاسکتا ہے لیکن جب بھی اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے لیڈران بشمول نواز شریف اور عمران خان یا دائیں بازو کو مروڑے گی تو خود بھی بند گلی کی یاترا کرنی پڑے گی، اور ایسا صاف شفاف دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری ایک اس بات کی سمجھ بھی نہیں آئی 1985، 1990، 1997، 2008 اور 2013 کے محسنوں سے احسان فراموشی کی آخر ضرورت کیا تھی؟ بےجا غصے، اپنے ممبران اسمبلی سے دوری، تکبر اور بھارت سے دوستی میں بدل سے گزرنے کی ضرورت کیا تھی؟ بنا بنایا کھیل بگاڑ کر فیشن کے طور پر تازہ بیانئے کی ضرورت کیا تھی؟ بھائی اور باصلاحیت اور وفادار ساتھیوں کے ہوتے ہوئے یکایک مریم نواز کی سیاسی دستاربندی کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ بسے بسائے اور بنے بنائے سیٹ اپ پرخود ہی شب خون مارنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ بند گلی کیا، قائد تو دیوار سے راستے بنانے کے صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے! ہم اتنا کہتے ہیں کہ، میاں صاحب اگر اپنی پارلیمنٹ کی حاضری ہی کو یوسف رضا گیلانی کی طرح باقاعدہ اور اپنے ممبران سے روابط کو دوام بخشتے تو یہ دن نہ آتے۔
ہم نے کراچی سے تعلق رکھنے والے 2013 میں کراچی سے سیٹ نکالنے والے عبدالحکیم بلوچ سے پوچھا کہ آپ نے بیک وقت وزارت مملکت اور ن لیگ کیوں چھوڑے؟ اس کا جواب تھا کہ ہم پیپلزپارٹی چھوڑ کرن لیگ میں گئے لیکن ن لیگ کی قیادت پیپلزپارٹی کی طرح ممبران پارلیمنٹ اور ساتھیوں کو عزت نہیں دیتی، اور وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پھر اسمبلی پہنچ گیا۔ ن لیگ کے ممبران اسمبلی نے خود مجھے کہا کہ عبدالحکیم بلوچ کا واپس جانا قیادت کی کوتاہی تھی کراچی کے بندے کو ہولڈ رکھنا چاہئے تھا۔ میاں نواز شریف کے چاہنے والے جب کہتے ہیں کہ، میاں نواز شریف کا بیانیہ بڑا تکا ہے تو ہم کہتے ہیں پرویز رشید، مشاہد اللہ اور نہال و طلال و دانیال نے انکے پاس چھوڑا ہی کیا تھا، گویا وہ الیکشن 18 میں یہ بھی نہ رکھتے تو کیا رکھتے؟
الیکشن 18 بلاول بھٹو زرداری کیلئے آئندہ کیلئے اچھی نیٹ پریکٹس ثابت ہوا ہے۔ بلاول کی شائستگی اور عزم سب لیڈران پر غالب رہا جو ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ کاوش قابل ستائش تھی تاہم پنجاب کے دو اور حلقوں میں جو میں نے بطور خاص جا کر دیکھا ، ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتخابی صورت حال بہت بہتر ہے، اسی طرح سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف گوجر خان میں فتح کے قریب تر ہیں۔ سنا ہے جھنگ سے فیصل صالح حیات اور رحیم یار خان سے سابق گورنر مخدوم احمد محمود کے صاحبزادے اور مخدوم شہاب الدین اپنے حلقے جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور مظفر گڑھ سے غلام ربانی کھر کی پوزیشن بھی بہتر ہے۔ بلاول بھٹو ذہن نشین رکھے بس پنجاب سے یہی کچھ حاصل کرلیں تو غنیمت جانیں۔ پیپلزپارٹی کے یہ متذکرہ بالغ نظر لوگ اگر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو خاصا توازن بخش پارلیمانی کلچر محسوس ہوگا۔۔۔۔ چلتے چلتے الیکشن 2018 کے تناظر میں اتنا کہہ دوں۔ کوئی جتنا بڑا لیڈر ہے یا جتنا بڑا اپنے آپ کو جمہوریت پسند گردانتا ہے اگر اس کی نظر ماضی کے دریچے ، گریبان اور ضمیر میں نہیں جاتی اور ان تینوں درسگاہوں سے سبق نہیں سیکھتا ، تو کیا وہ کرے گا جمہوریت کا، اور کیا دے گا۔ الیکشن 18 کے بعد؟؟ (ختم شد)