سب کو اقبال سے ایک ہی گلہ ہے کہ وہ دیر سے آتا ہے کوئی یہ جاننے کا تردد نہیں کرتا کہ اس کے دیر سے آنے کی وجہ کیا ہے؟ ۔ بڑی لمبی کھوج لگانے کے بعد ہمیں اب جا کرمعلوم ہوا ہے کہ وہ بہت دور سے آتا ہے اس لیے آنے میںدیر ہو جاتی ہے ۔ اقبال کے جاننے والے کہتے ہیں کہ بڑی "دو ر "ّْ سے آئے ہیں ، پیار کا تحفہ لائے ہیں۔ اقبال کی خودی بھی پیار کا تحفہ ہے جو انا ، ذات پرستی او رخود غرضی کے مضر اثرات سے پاک ہے ۔ ہمارے پیارے اقبال نے کوئی بات خلاف فطرت ، خلا ف قدرت یا خلاف انسانیت نہیں کی لیکن ابلیس کے ساتھیوں کو تو آڑے ہاتھ لیتے ہیں کہ
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
ہم ایک زمانے سے دو کشتیوں بلکہ اب تو تین ، چار کشتیوں کے سوار ہیںجیسے دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتاہے ویسے ہی دو ، تین کشتیوں کا سوار پار نہیں لگتا۔ لیکن اقبال کی طرح سواروں کی بھی مجبوری ہے کہ کوئی کشتی قابل اعتبار نہیںرہی ۔ دوسری ، تیسری کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہے دوسری طرف کشتی والے کہتے ہیں اس کو بس کشتی رہنے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
شدید گرم ، حبس زدہ موسم میںلوگ بارش کی دعا کرتے ہیں اب کے یہ موسم ماہ و سال کا نہیںرہا بلکہ عمر بھر کا ہے ۔ دریائوں او رآنکھوں کا پانی خشک ہو گیا ہے بے چارے ساون کے پیاسے کہتے ہیں
اے ابرـ! تو انصاف کیوں نہیں کرتا
میرے گائوں پر برسات کیوں نہیں کرتا
اور بادل ؍ ابر کہتا ہے کہ
اک ابر کا ٹکڑا کہاں ، کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دے
اب بات ، بادل ، برسات ، سیلاب اور انقلاب سے آگے بڑھ گئی ہے کہ ملک کی سا لمیت کو جغرافیائی ، سرحدی، اندرونی او ربیرونی چیلنجز ہی نہیں شدید خدشات و خطرات کا بھی سامنا ہے ۔ ظاہری طور پر تو کاروان جمہور کا سفر جاری ہے لیکن منزل کے تعین کے بغیر سفر بے کار والی بات ہے ۔ یہ نہ کہیں کہ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ ، آہستہ ۔ ہم نے سفر اور زندگی کو کاٹنے کی روش اپنا کر حقیقت میں خود کو کاٹنے کا غیراعلانیہ عمل جاری رکھا ورنہ اس زندگی کو رب عظیم کا بے مثال تحفہ ، انعام ، عطیہ جان کر خوب سنوار کے ، سجاکے گزارنا چاہیئے جو ہر جہاں میں عزت و اکرام کا باعث بنے ورنہ یہی زندگی شرمندگی و رسوائی سے عبارت ہو جاتی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ زندگی محض عبادت کی مشق نہیں بلکہ معاملا ت کا کھیل ہے جس میں بہار ، خزاں ، گرمی ، سردی کے سبھی موسم ہیں ۔ خوشیاں ، غم اور راحت کے جملہ سامان میسر ہیں ۔ جہاں سیری بھی ہے اور بھوک بھی ۔ شکم پری کے اسلوب میں بھی سادگی اپنائیں کہ اتنا کھائیں جتنا ہضم کر سکیں اگر کھانے کے بعد ہاضم کھانا پڑے تو جان لیں آپ نے اپنے حصہ سے زیادہ کھا لیا ہے ۔ یہی معاملہ اقتدار و اختیار کا ہے جس کی بسیاری اوردیوانگی میں تخت نشینوں کو تختہ دار کی زینت بننا پڑتا ہے ایک سادگی ، ایک سلیقہ ، ایک قناعت چاہیئے زندگی کیلئے بس ۔
بگل انتخاب بجنے کے بعد کئی شہ سوار، تیر و تلوار لیے ، شیرو جیپ پر سوار ہو کے ۔ مرزا جی کی سائیکل کا پہیہ گھماتے ، کچھ کتاب بینی کرتے اور پتنگ اڑاتے ہوئے میدان میں اترے ہیں ۔ چند تو اس دور میں بھی لالٹین لیے کھڑے ہیں ۔ کچھ متوالے بالٹی ، ٹب او رمگاگھماتے پھرتے ہیں جبکہ ان میں پانی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ یہ سب کے سب کامیاب ہوںکیونکہ ان کی کامیابی میںدراصل عوام کی کامیابی ہے ۔
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دے
Jul 24, 2018