تھریسامے مستعفی، بورس جانسن نے برطانیہ کے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھال لیں

Jul 24, 2019 | 22:52

ویب ڈیسک

بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے اور 77 ویں وزیراعظم کے طور پر 10 ڈاوننگ سٹریٹ میں داخل ہو گئے،  برطانیہ میں سبکدوش ہونے والی وزیراعظم تھریسامے نے پارلیمنٹ میں آخری خطاب کے بعد ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اور اپنا استعفی پیش کردیا۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں بورس جانسن کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سبکدوش یونے والی وزیراعظم تھریسامے نے پارلیمنٹ سے الوداعی خطاب کے بعد ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اور اپنا استعفی پیش کردیا۔تھریسامے کی ملاقات کے بعد بورس جانسن نے بھی ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی، ملاقات میں ملکہ برطانیہ نے انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے نیک تمناوں کا اظہار کیا۔ تھریسامے کے استعفی کے بعد نومنتخب بورس جانس ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے ہیں جو  کل جمعرات کو اپنی نئی ٹیم کا اعلان کریں گے۔قبل ازیں برطانوی پارلیمنٹ نے الوداعی خطاب کے لیے تھریسامے کا تالیاں بجا کر شاندار استقبال کیا، بورس جانسن سمیت اراکین نے سبکدوش وزیراعظم کو ملک کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے خراج تحسین پیش کیا۔ ملکہ برطانیہ بھی تھریسامے کے کام کی تعریف کی۔واضح رہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے بریگزٹ ڈیل پر بات نہ بننے پر وزیراعظم تھریسامے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا جس پر انتخابات ہوئے اور سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے ہیں، رائل فیملی کے ٹویٹر اکاونٹ پر بتایا گیا کہ ملکہ برطانیہ نے بورس جانسن کے وزارت عظمی کے عہدے کے فیصلے کی توثیق کر دی ۔ٹین ڈاوننگ سٹریٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نو متنخب وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ملکہ برطانیہ نے مجھ پر اعتماد کیا ہے، انہوں نے جو حکومت بنانے کی دعوت دی میں نے قبول کر لی، عوام میرے مالکان ہیں، میرا کام آپ کی خدمت کرنا ہے، گلیوں کوچوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہوں، عوام کی حفاظت کیلئے 20 ہزار نئے پولیس اہلکار تعینات کریں گے، اب فیصلوں کا وقت آ گیا ہے۔ مسائل کے حل کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ تعلیم اور سوشل سیکٹر میں جتنے بھی مسائل ہیں انہیں حل کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے یورپی یونین کو ایک پیغام بھیجا اور کہا کہ ہم بریگزٹ کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ ہم ڈیل کے بغیر بھی یورپی یونین سے نکل جائیں۔ بریگزٹ عوام کا بنیادی فیصلہ ہے۔ ہمارے لیے بہت ساری مشکلات ہیں تاہم ہر طرح کے مسائل کا سامنے کرنے کیلئے تیار ہے۔بورس جانسن کا مزید کہنا تھا کہ میں برطانوی شہریوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہ صرف آپ لوگوں کے لیے کھڑا ہوں۔ میں پورے انگلینڈ کا وزیراعظم ہوں۔ برطانیہ کے 20 ہسپتالوں کو اپ گریڈ کروں گا۔ یورپی یونین کیساتھ تین سال سے جاری ملک میں بے یقینی کی فضا کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے مخالف کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے۔نو منتخب برطانوی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران شہریوں کی بڑی تعداد وہاں بورس جانسن کے حق میں نعرے لگا رہی تھی۔یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے بھی انہیں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ ہم آپ کیساتھ جلد مل کر بریگزٹ کے معاملے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔اس سے قبل بورس جانسن کو کنزرویٹو پارٹی نے نامزد کیا تھا، اس سے قبل لندن کے میئر اور وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ وزارت عظمی کے لیے ان کا مقابلہ جیرمی ہنٹ کیساتھ تھا۔ بورس جانسن کو 92153 ووٹ ملے جبکہ جیرمی ہنٹ کے حصے میں 46656 ووٹ آئے۔سبکدوش برطانوی وزیراعظم تھریسامئے نے اپنی الوداعی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد قوم کا نیاجنم ہو گا۔ برطانیہ کا وزیراعظم ہونا میرے لیے اعزازکی بات تھی۔ سبکدوش ہونے والی وزیراعظم نے تقریر کے اختتام میں تمام سٹاف اوربرطانوی عوام کا شکریہ بھی ادا کیا۔ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی انگلینڈ کے نئے وزیراعظم کو مبارکباد دی ہے۔ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ ترکی اور برطانیہ کے تعلقات نئے دور میں مزید بہتر ہونگے۔دوسری طرف ترکی نے بھی بورس جانسن کے وزیراعظم بننے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا جانشین برطانیہ کا وزیراعظم بن رہا ہے۔ترک میڈیا نے نئے وزیراعظم بورس جانسن کو بورس دی ترک کے نام سے بلانا شروع کر دیا ہے۔ ترکی کے متعدد اخبارات میں اس خبر کو ترجیح دی جا رہی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا پوتا برطانیہ کا نیا وزیراعظم،یاد رہے کہ چند پشتوں پہلے بورس جانسن کا خاندان ناصرف مسلمان تھا بلکہ ان کے پڑدادا کا شمار سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا نام علی کمال تھا۔ وہ ایک صحافی اور لبرل سیاستدان تھے۔ علی کمال کے والد کا نام احمد آفنندی تھا اور پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔ وہ استنبول میں 1867 میں پیدا ہوئے تھے۔علی کمال کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم استنبول میں حاصل کی تاہم اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک چلے گئے، انہوں نے جنیوا، پیرس میں سیاسیات میں ڈگری مکمل کی۔ 1903 میں ایک سوئس خاتون ونی فریڈ برون سے شادی کی، اس کی شادی کے بعد ان کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے، بڑی بیٹی کا نام سلمی رکھا گیا جبکہ بیٹے کا نام عثمان علی رکھا گیا۔خبر رساں ادارے کے مطابق عثمان علی کی ولادت کے بعد فورا بعد ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا پھر دونوں بچوں کو ان کے ننھیال برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں ان کی نانی مارگریٹ برون نے ان کی پرورش کی۔

مزیدخبریں