پاکستان تحریک انصاف کے بانی، نظریاتی اور ملک میں حقیقی جمہوریت، حقیقی تبدیلی اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کا عزم لے کر عمران خان کی قیادت میں نکلے تھے آج ان بانی اراکین کی اکثریت کہیں بہت دور انصاف، قانون اور آئین کو پامال ہوتا دیکھ رہی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے پہنچتے انصاف کی فراہمی کا خواب تو کہیں بہت دور پیچھے رہ گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ بانی اراکین بھی حصول اقتدار کے تیز رفتاری میں نظریے کو سنبھالے، دل سے لگائے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ آج ہم آپ کو پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور باہمت، ایماندار‘ بے لوث، محنتی، متحرک، پرجوش و پرعزم نعیم الحق کے بارے بتائیں گے۔ یہ وہ نعیم الحق نہیں ہیں جنہیں آپ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی ان کے ساتھ دیکھتے رہے۔ بلکہ یہ وہ نعیم الحق ہیں جو ابتدائی دنوں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ تھے۔ بریگیڈیئر انعام الحق مرحوم کے صاحب زادے ہیں۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے ان میں بریگیڈیئر انعام الحق بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے ناصرف کردار ادا کیا
بلکہ قربانیاں دیں اور مصائب کا سامنا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ جرمنی میں گرفتار ہوئے پھر سفارتی سطح پر بات چیت کے بعد انہیں وطن واپس لایا گیا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے نعیم الحق مئی یا جون انیس سو چھیانوے میں آج کے دو اہم سیاست دانوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے اپر مال کے دفتر میں تشریف لائے تھے۔ آج وہ دونوں سیاست دان کسی اور سیاسی جماعت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اقتدار اور اختیار سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے ہیں لیکن نعیم الحق اس وقت سے آج تک پاکستان تحریکِ انصاف کے سفھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید اب بھی تحریک انصاف واپس اپنے منشور اور نظریے پر واپس آ جائے۔ نعیم الحق نے دو ہزار تیرہ اور اٹھارہ کے انتخابات میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ دو ہزار گیارہ سے اٹھارہ کے دوران نعیم الحق بہت زیادہ متحرک دکھائی دیے اس عرصے میں انہوں نے جماعت کو نچلی سطح پر منظم کرنے، نوجوانوں تک عمران خان کا پیغام پہنچانے، تحریک انصاف کو گلی کوچوں تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں چودھری محمد سرور، عبدالعلیم خان، شاہ محمود قریشی اور محمود الرشید کے ساتھ مل کر بہت متحرک رہے۔ لاہور میں انصاف مرکز کے نام پر نظریاتی ورکرز کے لیے ایک تحریک شروع کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کوشش دم توڑ گئی ہو سکتا ہے آج بھی کہیں انصاف مرکز قائم ہو لیکن اس کے ہونے نہ ہونے سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ نہ تو جماعت میں نظریاتی کارکنوں کو ان کا جائز مقام ملا نہ تحریک انصاف میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے۔ نعیم الحق کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکزی قیادت کے رائے بہت اچھی تھی۔ اسد عمر، شاہ محمود قریشی، چودھری سرور سمیت دیگر اہم رہنماء یہ سمجھتے تھے کہ نعیم الحق ایک بہترین سیاسی کارکن اور تعمیری کاموں میں بہت اچھا تجربہ اور ریکارڈ رکھتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر ایسی رائے کے باوجود نعیم الحق کو حکومت میں آنے کے بعد بھلا دینا ایسے نظریاتی، تعمیری اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو بھلا دینا ہی پاکستان تحریکِ انصاف کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ اب تو بہت دن ہوئے انہیں پاکستان تحریک انصاف کی کسی تقریب یا اجتماع میں نہیں دیکھا۔ لگتا ہے کہ شاید نعیم الحق پی ٹی آئی کو بھول گئے ہیں یا جن کے ساتھ وہ بائیس سال تک سیاسی جدوجہد کرتے رہے وہ انہیں بھول گئے ہیں۔ ویسے پاکستان تحریک انصاف اس کام میں ماہر ہے انہیں نہ کسی کے آنے کی خوشی ہوتی ہے نہ کسی کے جانے کا غم ہوتا ہے۔یہ معمولی یا روایتی سیاسی کارکن نہیں تھے جو ہر وقت فوٹو سیشن کے لیے تو موجود رہیں لیکن عملی طور پر دور دور تک نظر نہ آئیں لیکن آج کل دور فوٹو سیشن والوں کا ہے جو خون پسینہ دیتے رہے ملک کی بہتری کے لیے سڑکوں کی خاک چھانتے رہے وقت آنے پر انہیں ایک طرف کر دیا گیا اور دیگر افراد کو اہم عہدے دے دیئے گئے۔
اب ذرا نعمان بٹ کی بات کریں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان پر تین سال کی پابندی عائد کی ہے۔ نعمان بٹ نے گذشتہ سال سترہ اپریل کو قرارداد کوئٹہ پیش کی تھی۔ اس قرارداد میں ڈیپارٹمنٹ اور ایسوسی ایشنز کی کرکٹ کو بحال رکھنے کے ساتھ دیگر اہم معاملات پر آواز بلند کرتے ہوئے کرکٹ بورڈ کے فیصلوں سے اختلاف کیا گیا تھا۔ پی سی بی چیئرمین احسان مانی اور ان کی ٹیم کو اپنے گورننگ بورڈ کے رکن کا یہ عمل ناگوار گذرا بعد میں دیگر چار اراکین نے اختلاف رائے ختم کرتے ہوئے ہم خیال بننا پسند کیا یوں وہ آج بھی کرکٹ بورڈ کے پسندیدہ ہیں حالانکہ اس قرارداد میں وہ سب نعمان بٹ کے ساتھی تھے لیکن موقف تبدیل کرنے کے بعد وہ پسندیدہ قرار پائے جبکہ نعمان بٹ کو موقف پر قائم رہنے کے جرم میں سزا سنا دی گئی ہے۔ زمینی حقیقت کو دیکھا جائے تو محکمہ جاتی و علاقائی کرکٹ کا خاتمہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ کھیل کے مواقع کم ہوں گے۔ بیروزگاری بڑھے گی۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔محکموں اور ایسوسی ایشنز کی کرکٹ کے خاتمے سے کرکٹ کا حال قومی کھیل ہاکی جیسا ہو سکتا ہے۔ مسلسل کرکٹرز کو محکموں سے نکالا جا رہا ہے۔ کھلاڑی معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس صورت حال میں بورڈ حکام کے اس فیصلے کو تعمیری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بورڈ میں بھی امپورٹڈ لوگ بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی دوہری شہریت والوں کو اہم عہدے دینے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ کیا پورے پاکستان میں کوئی ایک قابل شخص نہیں تھا جو چیف ایگزیکٹیو بن کر کرکٹ بورڈ کو چلا سکتا۔ ہم اتنے نالائق یا نااہل تو نہیں ہیں کہ کرکٹ بورڈ کو نہ چلا سکیں۔ بہتری اور ترقی کے لیے اختلاف رائے کو اہمیت دینی چاہئے منتخب نمائندوں کا حق ہے کہ وہ فیصلوں سے اختلاف یا اتفاق کریں اگر نعمان بٹ نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کے فیصلوں سے اختلاف کیا تھا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر دروازے بند کر دیئے جاتے یہ رویہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ احسان مانی اور ان کی ٹیم کی کارکردگی بھی وفاقی کابینہ کی طرح ہے جہاں بیانات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے ذریعے کلبھوشن یادیو کو رعایت کیوں دی جا رہی ہے،حکومت کیوں ایک بھارتی جاسوس کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ کشمیر مقتل بنا ہوا ہے، ہم کبھی تجارت کھول رہے ہیں تو کبھی کلبھوشن پر آرڈیننس نکالتے ہیں، ہمیں تو مودی کے یار کا طعنہ دیا جاتاتھا، اب فیصلے کس کے دباؤ میں ہو رہے ہیں۔ آج کون مودی کا یار ہے۔ وزیراعظم بتائیں کہ پاکستانی غیرت کا سودا اور ملک کی عزت کیوں بیچ رہے ہیں؟ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو پاکستان کا مجرم ہے۔
اس معاملے میں مکمل طور پر حکومت ذمہ دار ہے۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے ہر وقت حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔ حالات کو سمجھے اور جانے بغیر صرف تنقید کی جاتی ہے حکومت میں آنے کے بعد ضروریات بدل جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کو آج سب سے زیادہ مسائل اس کے ماضی کے بیانات کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے اپنے بیانات ہی گلے پڑ رہے ہیں۔ اس پہلو کو دیکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں سیاست میں سنجیدگی کو شامل کرنا پڑے گا۔ صرف سیاسی مخالفت کی بنا پر بیانات جاری کرنا سنجیدہ طرز عمل نہیں ہے۔ کل پی ٹی آئی نے یہ کیا آج اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس رویئے کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اگر ماضی میں پی ٹی آئی اس معاملے پر سخت موقف رکھتی تھی تو پھر آج وہ برداشت کرے۔ اپوزیشن کو اس معاملے پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ حکومت کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ نامناسب ہے اگر یہ سیشن کرنا تھا اور اس میں یہ معاملہ زیر بحث آنا تھا تو پھر حکومت پہلے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتی جمہوری اقدار و روایات کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرتی لیکن حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ملک میں موجود اپوزیشن جماعتوں سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن پارلیمانی نظام میں آپ نے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس میں ناکام ہے تو پھر اب بھگتے‘ جو نعرے وہ دوسروں کے خلاف لگاتے تھے آج ان کے خلاف لگ رہے ہیں۔اپوزیشن سے کسی اچھائی کی امید نہیں ہے ان کا ماضی بھی داغدار ہے لیکن پارلیمانی روایات کے مطابق سیشن سے پہلے بامقصد و بامعنی بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔ پی ٹی آئی جو فصل کاٹ رہی ہے یہ انہوں نے خود کاشت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اچھے حالات نہیں ملے، معیشت خراب تھی، حالات بدتر تھے لیکن عوامی سطح پر حکومت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن نہیں ہے۔ اس کی مکمل ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
چینی کے اہم مسئلے پر وزیراعظم پاکستان کو خود نگران بن کر کام کرنا ہو گا۔ اس سال کے لئے چینی کی قلت ہے۔موجود ہ سٹاک صرف تین ماہ یعنی اکتوبر تک کے لئے ہے۔ اس کے بعد نومبر میں حکومت کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہی صورتحال گندم کے حوالے سے ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بدانتظامی ، پالیسی کی ناکامی ، غیر مناسب پابندیوں ، غلط منصوبہ بندی ، صوبوں اور وفاقی سطح پر حکومت کو غلط مشورے اور بیوروکریسی اور ماہرین زراعت کی آراء کو نظر انداز کرتے ہوئے حقیقت سے دور پالیسیوں پر عمل کرنا ہے۔گندم کی فروخت پر تمام پابندیاں واپس لی جائیں اور مارکیٹ میں کام کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کاروبار میں آزادی دی جائے۔ اس سے کھلی مارکیٹ میں قیمتوں میں فوری طور پر کمی آئیگی۔
نومبر اور دسمبر کے دوران بڑے بحران سے بچنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز خصوصا صوبائی اور وفاقی سطح پر درآمد کنندگان کے ساتھ مل بیٹھیں۔ کیونکہ قیمت کی نسبت دستیابی زیادہ اہم ہے۔ پنجاب میں پالیسی بنانے والے خاص طور پر محکمہ فوڈ کے لوگوں کو فوری طور پر ٹرانسفر کیا جائے۔ یہ ایک طویل عرصہ سے یہاں بیٹھے ہیں اور ان میں سے کچھ اہم معاملات میں مافیاز کی تفتیش کرتے ہیں۔ اصل میں مسائل یہاں ہیں یہ لوگ ان مافیاز کے ساتھ مل کر حکومت اور عوامی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث ہیں حتی کہ ان میں سے کچھ اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھا رہے ہیں۔ گندم کو فوری طور پر درآمد کریں کیونکہ بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اگر ان دونوں معاملات میں سنجیدگی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کام نہ کیا گیا تو رواں سال کے آخری مہینوں میں حکومت کو بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس معاملے میں حکومتی وزراء کا اتنا قصور نہیں ہے لیکن متعلقہ محکموں میں بیٹھے مافیاز کے نمائندوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزراء کی نالائقی یا کم علمی سے مسائل تو ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ان پر کسی بدعنوانی میں شامل ہونے کے امکانات کم ہیں۔ ممکنہ بحرانوں سے نمٹنے کے لئے حکومت کو سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ وفاقی و صوبائی وزراء کو بھی اس حوالے سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ٹیلیویژن اور پریس کانفرنسوں سے باہر نکل کر کچھ کریں یہ نہ ہو کہ قیمتوں پر قابو پانا تو دور کی بات ہے۔ آٹا اور چینی کی دستیابی اور فراہمی ہی بڑا مسئلہ بن جائے۔