اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت‘ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی اجلاس میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں، میں خود اور شاید نوید قمر بھی شریک تھے اور دونوں جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے تھے کہ عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار کیوں تسلیم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک ملک عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار تسلیم نہیں کرتا تو وہ کیس نہیں سنا جاتا۔ شیری رحمن اور میں نے حقائق کی بنیاد پر اس حوالے سے اعتراضات اٹھائے تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سینیٹر شیری رحمن اور میں نے کہا تھا کہ کیس کا دفاع کرنے کے لیے دفتر خارجہ کا جو نمائندہ بھیجا وہ بھی غلط ہے۔ شیریں مزاری کا کہنا تھا کلبھوشن یادیو کا کیس پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار کیوں تسلیم کیا، وکیل مقرر کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا گیا، ہم نے پہلے دن کہا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے کلبھوشن یادیو کا کیس تسلیم کرکے غلطی کی۔ یہ صرف ہمارا نہیں پیپلزپارٹی کا مؤقف بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے تھی کہ اس کا دائرہ کار تسلیم نہ کرتے لیکن جب تسلیم کرلیا تو اس کا فیصلہ بھی ماننا ہوگا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پوچھیں کہ مودی کا یار کون تھا؟۔ آئی سی جے کا دائرہ کار کس نے تسلیم کیا تھا؟۔ ہم ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں پھنس گئے ہیں کیونکہ انہیں یہ تسلیم ہی نہیں کرنا چاہیے تھے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ ن لیگ نے یہ مصیبت ہمارے ملک میں ڈالی جو کہ نہیں لانی چاہیے تھی، آئی سی جے میں یہ کیس کیوں لڑا تھا؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے واضح کیا تھا کہ دائرہ کار تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھا یہ ان کی غلطی ہے۔ بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری کی پارلیمنٹ ہائوس میں تقریر کے رد عمل میں اپنی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ آج ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی اپوزیشن پارٹی کا رہنما تقریر کرتا ہے اور اپنی ہی تقریر کے دوران کورم کی نشاندہی کرتا ہے اور کورم کی گنتی کئے بغیر راہ فرار اختیار کر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ورکر اور حادثاتی طور پر بننے والے پرچی والے سیاستدان میں یہی فرق ہوتا ہے۔ مراد سعید نے کہا کہ حادثاتی چیئرمین کو جب معلوم پڑا کہ انہیں کوئی جواب دینے والا پارلیمنٹ میں موجود ہے تو انہوں نے اپنی ہی تقریر کے دوران کورم کی نشاندہی کی اور کورم کی گنتی کا انتظار کیے بغیر پارلیمنٹ سے فرار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول کو نہ سندھ کے مسائل سے کوئی سروکار ہے اور میڈیا کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں۔ میڈیا ان سے کوئی سوال پوچھتا ہے تو کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں سوال پوچھنے والے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکرقومی اسمبلی سے گزارش ہے کہ وہ انہیں پابند بنائے کہ وہ اپنی تقریر کے دوران اٹھائے گئے سوالات کا جواب لینے تک پارلیمنٹ میں رہیں کیونکہ جو کورم کی نشاندہی کرتا ہے اسے گنتی تک پارلیمنٹ تک بیٹھنا ہوتا ہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مراد سعید نے کہا کہ اپنی تقریر میں پہلی بات کلبھوشن کے حوالے سے کی لیکن ماضی میں انہوں نے کلبھوشن کو اپنی تقریر کا کبھی حصہ نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے نواز شریف کی تقریر کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کے کیس میں اپنے مؤقف کے طو ر پر پیش کیا۔ ہم ماضی میں کہا کرتے تھے کہ وہ کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیتے کیونکہ وہ ان سے محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا قوم بھول چکی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے ملک کی سڑکوں پر ہمارے ہی شہریوں کو ہلاک کیا اور اسے کس نے فرار کرایا اور یہی ایک حقیقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرچی والے چیئرمین کے والد نے امریکا میں حسین حقانی کی موجودگی میں جو ملاقاتیں کیں اور جو باتیں کیں اس سے امریکی بھی پریشان ہو گئے لیکن آج نہ کسی میں ڈرون حملے کرنے اور نہ ڈو مور کا مطالبہ کی ہمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں آج اسلام کا پیغام گونجنے لگا ہے۔ سندھ میں گندم چوری ہو تو پورا پاکستان متاثر ہوتا ہے اور جب اس بات کا نوٹس لیا گیا تو اربوں روپے کی گندم باہر آئی تو آپ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انکوائریاں بھی ہوں گے اور ذمہ داران کا تعین بھی ہوگا اور آپ سے آپ کی نہ اہلی کے متعلق سوال بھی ہوں گے۔ اس کا آپ کو جواب دینا ہو گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سندھ میں ڈاکٹرز کے لئے وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں، بچوں کی غذائی قلت کی و جہ سے اموات ہوتی ہیں ،گندم چوری ہوتی ہے اور جب اس بارے میں پوچھا جائے تو آپ کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سڑک، بے دھڑک لوٹ مار اب نہیں چلے گی، ہم آپ کی نظروں میں نظریں ملا کر جواب دیں گے تاکہ قوم آپ کی اصیلت کو پہنچان سکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان پوسٹ کا جب چارج سنبھالا تو 7.7 ارب ریونیو تھا اور اب مشکل حالات کے باوجود 90 ارب روپے ہے۔ پنشنرز کو پنشن مل رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان میں 98 فیصد بدعنوانیوں میں کمی آ گئی ہے جو ہماری کوششوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ انکوائری رپورٹ سامنے رکھ رہے ہیں۔