مکرمی! آجکل ہر طرف سے مایوسی کی خبریں ملتی ہیں۔ چند سال قبل حوصلہ افزاء اور پُرامید حقائق اور معلومات سے واسطہ پڑتاتھا۔ اپنے وطن اور دنیا کا ماحول امید افزاء اور روشن تھا۔ اب معاملہ اسکے برعکس نظر آتا ہے۔ یعنی مایوسی اور اداسی کے بادل زیادہ اور امید و رجاء کی کرنیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ’’رجائیت‘‘ سے ’’قنوطیت‘‘ کا یہ سفر اچھا شگون نہیں۔ ہمارا دین تو ہے ہی امید ، حوصلے اور اعتماد کا منبع۔ جب اللہ اور اسکے رسولؐ پر ایمان لے آئے تو پھر کس بات کا خوف اور کس شے سے ناامیدی۔ قرآن کا مطالعہ ہمیں خرد مندی ،فہم و ادراک اور حسن شعور سے رائے قائم کرنے کا درس دیتا ہے۔ سورہ ’’زمر‘‘ آیت 53 میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ (اے نبیؐ) کہہ دوکہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو غفور اور رحیم ہے۔‘‘ سورہ ’’یوسف‘‘ کی آیت 87 میں حضرت یعقوب ؑ کی زبانی اپنے بیٹوں سے خطاب میں یہاں تک فرما دیا کہ : ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اسکی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ اللہ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور نامساعد حالات کاامید و رجاء سے مقابلہ کرنا اللہ کے مومن بندوں کا شعار ہے۔ علامہ اقبالؒ کے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’عصرِ حاضر کو آج ایک رومیؒ کی ضرورت ہے جو دلوں کو زندگی ، امید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کر دے۔‘‘ (حسن علی چودھری لاہور)
’’ناامیدی سے امید کا سفر‘‘
Jul 24, 2020