اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی‘ نمائندہ نوائے وقت) جمعرات کو قومی اسمبلی میں حکومت کو کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر عالمی عدالت انصاف (نظرثانی) صدارتی آرڈیننس 2020ء پیش کرنے سے قبل اپوزیشن کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس پیش کرنے سے قبل کورم کی نشاندہی کر کے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرا دیا۔ حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی جس کے باعث صدارتی آرڈننس ایوان میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ اپوزیشن ارکان نے، شیم شیم، مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے۔ بلاول بھٹو ایوان سے باہر چلے گئے۔ حکومتی ارکان نے مطالبہ کیا کہ جس نے کورم کی نشاندہی کی اسے بلائیں مگر صدر نشین نے حکومتی مطالبہ مسترد کردیا۔ گنتی کرانے پر کورم پورا نہ نکلا، صدر نشین امجد خان نیازی نے کورم مکمل ہونے تک اجلاس کی کارروائی موخرکردی لیکن جب کورم پورا نہ نکلا تو اجلاس جمعہ (آج) 11بجے تک ملتوی کر دیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر عالمی عدالت انصاف (نظرثانی)آرڈیننس 2020پیش کرنے سے قبل اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ صدر نشین امجد خان نیازی کی جانب سے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو فلور دینے پر اپوزیشن نے شور شرابہ کیا۔ اس دوران خواجہ آصف اور ڈاکٹر شیریں مزاری کے درمیان تکرار ہوئی۔ مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے کہا کہ یہ ایک دہشت گرد جس نے ہمارے ملک میں دہشت گردی کا اعتراف کیا ہوا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی ہوئی ہے اور اس کو سزا دی ہوئی ہے، ہمارے دور میں کلبھوشن یادیو ایک گالی تھی، ہمیں مودی کا یار کہا جاتا تھا، آج ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ایک قانون بنا کر اس کو سہولت فراہم کر رہے ہیں، ہمیں طعنہ دیا جاتا تھا کہ نواز شریف انڈیا کو خوش کر رہا ہے، یہ قانون لاکر کون کس کے آگے سجدہ ریز ہو رہا ہے اور کون کس کے آگے گھٹنوں کے بل جھک رہا ہے، حکومت قانون لاکر کیوں اس کی سہولت کار بن رہی ہے، ہم اس قانون کے خلاف ہیں، ہم کلبھوشن کو لاڈلا بنا رہے ہیں، آج مودی کے آگے کون سجدہ ریز ہے اور ناک سے لکیریں نکال رہا ہے، مودی کے آگے لیٹ گیا ہے، کشمیر مقتل بنا ہوا ہے، ہم کبھی تجارت کھول رہے ہیں کبھی کلبھوشن پر آرڈیننس نکالتے ہیں، یہ قانون سازی قومی حمیت اور وقار کے خلاف ہے۔ بتایا جائے بھارت نے کیا فائدہ دیا ہے، بتایا جائے پاکستان کی غیرت اور حمیت کو سودا کیوں کیا جارہا ہے اور پاکستان کی عزت کو بیچا جا رہا ہے ، یہ ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم آیا تھا اور کہتا رہا کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، جتنے این آر او عمران خان نے دئیے ہیں پاکستان کی تاریخ میں کسی آمر نے نہیں دئیے، کسی وزیر اعظم نے نہیں دئیے، سب سے تازہ ترین این آر او کلبھوشن یادیو کے لئے ہے، 20مئی کو یہ آرڈیننس کے ذریعے قانون نافذ کیا گیا، 29مئی کو گزٹ میں چھاپا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینی کے مسلسل اجلاس میں پیش نہیں کیا، انہوں نے عوام کو بتایا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کو بتایا، انہوں نے نہیں بتایا کہ ہم اتنا بڑا کام کرنے جارہے ہیں، ایوان کو اعتماد میں نہیں لیاگیا، جب میں نے معاملہ پریس کانفرنس میں اور سینٹ میں اٹھایا کہ کلبھوشن کو کیوں ریلیف دے رہے ہیں تو حکومت نے ایوان میں پیش کیا، حکومت کا موقف ہے کہ ہم نے آئی سی جے کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر آئی سی جے کا دائرہ اختیار نہیں ماننا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے قانون سے اس کو این آر او دے دیں، بھارتی پائلٹ کو چائے پلا کر جلدی بھیج دیتے ہیں، اب کلبھوشن یادیو مانتا ہے کہ میں پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کرتا تھا تو پھر عمران خان کی تحریک انصاف کا جواز کیا ہے کہ کلبھوشن یادیو کو این آر او دینا چاہیے، کہانی نہیں رکتی، انہوں نے تو احسان اللہ احسان کو این آر او دے دیا ہے ، اس کو آزاد کروا دیا ہے، آپ آج بھی اگر وزیراعظم کے خلاف تقریر یا پریس کانفرنس کرتے ہیں تو احسان اللہ احسان کی دھمکی آجاتا ہے، یہ شروع دن سے دہشت گردوں سے ملے ہوئے ہیں، ہمارے خون کا جواب نہ دیں، ایے پی ایس کے بچوں کا جواب دینا پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے حکومت اور نیب گٹھ جوڑ پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ جہانگیر ترین کو، بلین ٹری، چینی چوری ، تیل چوری پر این آر او دیا جا رہا ہے، مالم جبہ پر این آر او دیا گیا۔ ہر چیز پر این آر او دیا جا رہا ہے، اب نیا احتساب کا ادارہ کھڑا کرنا چاہیے، اس آرڈیننس کو منظور کرنا ہمارا ضمیر نہیں مانتا۔ بلاول نے اپنی تقریر کے اختتام پر کورم کی نشاندہی کر دی اور اپوزیشن اراکین ایوان سے چلے گئے، اپوزیشن ارکان نے غدار ہے غدار ہے، شیم شیم ، مودی تیرا یار ہے کہ نعرے لگائے اور ایوان سے چلی گئی۔ حکومتی ارکان نے بھی جوابی نعرے لگائے۔ صدر نشیں امجد علی خان نے بلاول بھٹو زرداری کو بلانے کے بجائے کورم کی تکمیل تک اجلاس ملتوی کر دیا۔ بعد ازاں حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی تو قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل، پارلیمانی سیکرٹری ایوی ایشن جمیل احمد اور پارلیمانی سیکرٹری وفاقی تعلیم وجیہہ اکرم نے ارکان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ کہ پی آئی اے کی فلائٹس کی پابندی کی وجہ پائلٹس کے لائسنس والا معاملہ نہیں ہے بلکہ دیگر سیفٹی اقدامات کا مکمل نہ ہونا تھا، پی آئی کی پروازوں پر پابندی جلد اٹھا لی جائے گی۔ پی آئی اے کا معاملہ ہمارا نہیں ہے ، یہ پرانا معاملہ ہے ، ٹی وی کی جانب سے پروگرام میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ دکھانے والا معاملہ کو ہلکا نہیں لیا گیا، اس پر تحقیق جاری ہے۔ میڈیا کے کچھ بقایا جات مسلم لیگ (ن)کے دور کے تھے اور کچھ ہماری حکومت کے دور کے ہیں، مالکان سے بات چیت ہوئی اور یہ طے پایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران کے بقایا جات ہم ادا کریں گے، یہ 1ارب 15کروڑ کے بلز ہیں، 50فیصد ادا کرچکے ہیں اور باقی 50فیصد ایک ہفتہ میں ادا کر دئیے جائیں گے، علاقائی اخبارات کے حوالے سے اور کم اشاعت والے اخبارات کے اشتہارات کے حوالے سے میکنزم بنا رہے ہیں، دو سالوں میں غربت کی شرح بڑھنے کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، پی آئی اے میں کل طیاروں کی تعداد 34 ہے، اس وقت قابل مرمت طیاروں کی تعداد 31 جبکہ 3 ناقابل مرمت طیارے ہیں، پانچویں جماعت تک یکساں نصاب کا نظام 2021تک نافذ ہوجائے گا، پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں تعلیم کو یکساں معیار پر لایا جائے گا۔ پی، بلین ٹری سونامی منصوبہ پر 125 ارب روپے پانچ سال میں خرچ کیاجائے گا، قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ مولانا عبدالاکبر چترالی کا مناسب وقت نہ ملنے پر پینل آف چیئر کے رکن امجد خان پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو شور کرتے ہیں ان کو کئی کئی منٹ بات کرنے کا موقع ملتا ہے، میری باری پر صرف سوال کرنے کا کہا جاتا ہے ، ہم بھی لاکھوں افراد کی نمائندگی کرتے ہیں، پینل آف چیئر نے احتجاج کے بعد مولانا عبدالاکبر چترالی کو بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا ، وقفہ سوالات کے دوران وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ پی ٹی وی میں گزشتہ حکومتوں کے دوران سیاسی بھرتیاں گئیں، 2500سے زائد لوگ بغیر اہلیت کے بھرتی کئے گئے،اس اہم ادارے کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زائد حصہ ادا کیا گیا ہے‘ پنجاب نے چھوٹے صوبوں کے لئے قربانی دی ہے‘ بلوچستان اسمبلی کی 13 نشستیں بڑھانا وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ جمعرات کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی کمیٹی براے قانون سازی کے قیام کی منظوری دے دی۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی براے قانون سازی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔کمیٹی 24 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہوگی وزیر امور خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کمیٹی کے چیئر مین نامزد کئے گئے ہیں۔ کمیٹی میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزراء پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، سینیٹر شبلی فراز، شیریں مزاری اور وزیرمملکت علی محمد خان کریں گے۔